مرکز اطلاعات فلسطین
ایک امریکی وفاقی جج نے بدھ کے روز فلسطینی طالب علم محسن مہدوی کی رہائی کا حکم دیا ہے، جسے رواں ماہ امریکی شہریت کے انٹرویو میں شرکت کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں غزہ پر اسرائیلی جنگ کے خلاف طلباء کے مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنی رہائی کے بعد عدالت کے باہر ایک تقریر میں مہدوی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ان پالیسیوں کی مذمت کی، جن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطینی طلبہ کے حامی کارکنوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ”میں تم سے نہیں ڈرتا ٹرمپ، اگر کوئی خوف نہیں ہے، تو اس کی جگہ کیا لے سکتی ہے؟ محبت، محبت ہمارا راستہ ہے”۔
"انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے مجھے گرفتار کیا۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے اپنی آواز بلند کی اور کہاکہ ‘جنگ کے لیے نہیں، امن کے لیے'” مہدوی نے ٹرمپ انتظامیہ پر اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد پر کارکنوں کو نشانہ بنا کر "امریکی آئین کی خلاف ورزی” کا الزام لگایا۔
مہدوی جو 2015 سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کا قانونی رہائشی ہے۔ امریکی حکومت نے اسے عدالت کی مداخلت سے قبل ملک بدری کی دھمکی دی تھی اور اس کے کیس کے حتمی فیصلے تک ورمونٹ سے اس کی ملک بدری یا منتقلی کو روکنے کے لیے پابندی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
امریکی حکام نے مہدوی کو 14 اپریل کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ شہریت کے انٹرویو میں شرکت کر رہے تھے۔ ان کے وکلاء کی جانب سے دائر کی گئی شکایت کے مطابق مہدوی مقبوضہ مغربی کنارے میں پیدا ہوا تھا اور وہ اگلے ماہ گریجویشن کرنے والا ہے۔
مہدوی کولمبیا یونیورسٹی کا ایک ممتاز طالب علم کارکن ہے، جس نے اپنے ساتھی محمود خلیل کے ساتھ مل کر ایک فلسطینی طلبہ گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ امریکی فوج نے مارچ 2025ء میں محمود خلیل کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔
یہ معاملہ امریکی حکام کی طرف سے فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والے طلباء اور کارکنوں کے خلاف بڑھتی ہوئی مہم کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔