غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
غزہ میں ڈیڑھ سال سے نہتے اور معصوم فلسطینیوں کے خون کے ساتھ کھیلی جانے والی ہولی اور ان کے کرب، مصائب اور تکالیف کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ظلم، جبر، تشدد، سفاکیت اور جارحیت جیسے الفاظ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔ ہر بچے، بڑھے، بوڑھے، جوان ، مرد اور عورت کی اپنی ایک داستان خون چکاں ہے۔
ان مصائب ، تکالیف اور دکھ بھری کہانیوں میں ننھے علی فرج کا دکھ بھی شامل ہے۔ علی فرج غزہ شہر کے وسط میں واقع یرموک محلے میں تھا جب مہلک اور تباہ کن اسرائیلی میزائلوں نے آسمان آگ اور بارود جب کہ زمین شدید گرمی اور بمباری سے پھٹ رہی تھی۔
خون میں بھیگی دوپہر جمعرات 24 اپریل کو ایک اسرائیلی میزائل نے فرج خاندان کے گھر پر حملہ کردیا، جس نے علی کے پیاروں کو نگل لیا۔ چیخیں، خون اور جسم کے اعضاء ہر طرف اڑ رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے دستاویزی ویڈیو میں منظر ایک آشکار ہونے والے ڈراؤنے خواب سے ملتا جلتا منظر نشر کیا گیا۔گلابی لباس پہنے ایک چھوٹا سا بچہ جو راکھ، خون اور دھول سے سے لت پت تھا کا صرف آدھا جسم دکھائی دے رہا تھا۔ ایک قریبی گھر کی کنکریٹ کی چھت زمین سے چپکی ہوئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی سات سال سے کم عمر کا بچہ علی پڑا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا مگر جو بھی ہوا اس نے پل بھر میں سب کچھ بدل دیا۔
اپنے خاندان کے اکلوتے زندہ بچ جانے والے علی کو تشویشناک حالت میں کویتی ہسپتال لے جایا گیا اور معجزانہ طور پر بچ جانے والی اس کی والدہ نسیبہ آج بھی اس سانحے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی تلاش میں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میرا خاندان اور میرا سب کچھ اجڑ گیا۔ میرا شوہر، میرے بچے، میرے بھائی اور اس کے بچے، میری بہن اور اس کے بچے سب کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ صرف علی فرج ہی زندہ بچا جسے دھماکے کی طاقت سے پڑوسیوں کی چھت پر پھینک دیا گیا تھا۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ابھی تک زندہ ہے”۔
بزدلانہ اسرائیلی حملے کی شدت کے بعد اسے مدد کے لیے پکارتے ہوئے اس کو قریبی عمارت کی چھت پر دیکھا گیا۔
ہسپتال میں اس کی تھکی ہوئی آواز ناقابل فراموش ہے۔ اس نے کہاکہ "میں اپنے والد کے ساتھ تھا۔ اچانک بہت زور دار دھماکہ ہوا سب کچھ ہوا میں اڑ گیا،مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ میں گر گی۔ پھر میں نے خود کو یہاں پایا، میرا سر درد کر رہا تھا۔” اس کی حیرت زدہ آنکھوں نے وہ کہانی بیان کی جسے وہ بیان کرنے سے قاصر تھا۔ اس کے ننھے منھے جسم پر ایک ایسے جرم کے نشانات تھے جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔
بچے کی حالت کے بعد الجزیرہ کے نامہ نگار انس الشریف نے تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاکہ ’’علی فرج نامی یہ بچہ شمالی غزہ میں قابض اسرائیلی طیاروں کے قتل عام میں معجزانہ طور پر بچ گیا، جس کے دوران اس کا باپ اور اس کی پانچ بہنیں اور بھائی شہید ہوگئے، جب کہ اس کی والدہ شدید زخمی ہیں‘‘۔
غزہ میں دکھ اور درد بھری ایسی ان گنت داستانیں ہیں جنہیں تاریخ کی کتاب میں صہیونی دشمن کے فاشزم کے ایک مکروہ باب کے طور پر دیکھا جائے گا۔