غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
محصور غزہ کی پٹی میں درد اب محض ایک عارضی احساس نہیں رہا۔ یہ جلنے والے متاثرین کے لیے ایک مستقل ساتھی بن گیا ہے۔ ایسے بے بس زخمیوں جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں کی تعداد مسلسل اسرائیلی بمباری اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے مکمل طور پر تباہ ہونے کے نتیجے میں روزانہ بڑھ رہی ہے۔
جلنے والوں میں سیکڑوں بچے، عورتیں اور مرد ایسے ہیں جن کے پورے کے پورے جسم یا ان کے جسموں کے 40 فیصد سے زیادہ حصے کو جھلسا رکھا ہے۔ اس سےوہ ناقابل برداشت درد میں رہتے ہیں، جس کے علاج یا درد سے نجات کی کوئی امید نہیں ہوتی ہے۔
میں درد کی وجہ سے سو نہیں سکتا
ناصر ہسپتال کے خستہ حال سیکشنز میں سے ایک میں 17 سالہ تیسیر منصور ایک تنگ بستر پر پڑا ہے، جو ہاتھ ہلا نہیں سکتا اور نہ ہی کچھ کھا سکتا ہے۔ اگست 2024ء میں قابض اسرائیلی فضائی حملے میں اس کے گھر کو تباہ کرنے کے دوران اس کے جسم کا ایک تہائی جل کررہ گیا۔ اس بہیمانہ دہشت گردی میں اس کی ماں شہید اور اس کے والد اور بہن بھائی زخمی ہوگئےتھے۔
اس نے کہا کہ”میں 150 دن سے زیادہ ہسپتال میں ہوں”۔ اس نے مشکل سے بات کرتے ہوئے کہاکہ”میں درد کی وجہ سے سو نہیں سکتا اور میں خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔ میری زندگی اس دن سے رکی ہوئی ہے۔ میں ایک آرٹسٹ بننے کے خواب دیکھتا تھا، غزہ کی تصویریں بناتا تھا۔ اب میں بمشکل اپنا ہاتھ اٹھا سکتا ہوں”۔
غزہ میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے فلسطینی نژاد آسٹریلوی ایمرجنسی ڈاکٹر نے ضروری ادویات اور درد کش ادویات کی قلت کے درمیان اسرائیلی بمباری میں قتل عام کے نتیجے میں زخمیوں اور شہداء کی لاشوں کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے کہا کہ "جلے ہوئے گوشت کی بو میری ناک سے کبھی نہیں نکلتی۔
تیسیر کی کہانی واحد زخمی کا واقعہ نہیں بلکہ غزہ میں ہر روز دہرائی جانے والی سینکڑوں کہانیوں میں سے ایک ہے۔
اٹھارہ مارچ 2024 ءکو اسرائیلی جارحیت کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے ’ڈاکٹرز ود آؤٹ ڈاکٹرز‘ کی ٹیموں نے جلنے والوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔
صرف اپریل میں غزہ شہر میں تنظیم کے کلینک کو روزانہ 100 سے زیادہ مریض آتے ہیں، یہ تمام افراد صہیونی جارحیت کے نتیجے میں جھلسنے یا زخمی ہونے یا بھیڑ بھری پناہ گاہوں کے اندر رہنے والے سخت حالات میں مبتلا ہیں۔
مئی 2024ءکے بعد سے طبی ٹیموں نے ناصر ہسپتال میں جلنے والے مریضوں کی 1,000 سے زیادہ سرجری کی ہیں – جو واحد بڑا ہسپتال اب بھی جنوبی غزہ کی پٹی میں کام کر رہا ہے۔ ان متاثرین میں سے 70 فی صد بچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں۔ کئی دھماکوں سے زخمی ہوئے جب کہ دیگر خیموں اور پناہ گاہوں کے اندر ابلتے ہوئے پانی یا کھانا پکانے کے ایندھن سے جھلس گئے۔
تقریباً ناممکن علاج
شدید جلنے کے لیے پیچیدہ طبی علاج کی ضرورت ہوتی ہے جس میں بار بار سرجری، روزانہ ڈریسنگ میں تبدیلی، جسمانی تھراپی، مسلسل درد سے نجات اور طویل مدتی نفسیاتی مدد شامل ہوتی ہے۔ لیکن غزہ میں یہ سب ایک کھوئی ہوئی عیش و آرام بن کر رہ گیا ہے۔
ڈاکٹر احمد ابو وردہ جو ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ناصر ہسپتال میں طبی سرگرمیوں کے سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ”جھسلے بچے دن رات درد سے چیختے ہیں جب ہمیں ان کی جلد سے جلے ہوئے بافتوں کو ہٹانا پڑتا ہے۔ وہ ہمیں روکنے کی التجا کرتے ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر ہم مردہ بافتوں کو نہیں ہٹاتے ہیں تو انفیکشن ان کی جان لے جائے گا۔”
"پچاس دنوں سے زیادہ عرصے سےکوئی طبی سامان غزہ میں داخل نہیں ہوا ہے۔ ہمارے پاس بنیادی درد کش ادویات تک نہیں ہیں۔ ڈاکٹر زیادہ کام کر رہے ہیں اور چند باقی سرجن ہلاکتوں کی شدید تعداد میں گر رہے ہیں۔ اب ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ علاج نہیں ہے، بلکہ موت کو ٹالنے کی کوشش ہے۔
بے انتہا درد
چونکہ اسرائیلی ناکہ بندی طبی اور غذائی سامان کے داخلے کو روکنے کے لیے جاری ہے۔ غزہ میں جلنے والے مریضوں کو درد اور سست رو موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کوئی جراثیم سے پاک ماحول نہیں، بے ہوشی کی دوا نہیں، جراحی کے اوزار نہیں، زخموں کو سکون دینے کے لیے بنیادی مرہم بھی نہیں۔
ان حالات کے درمیان دنیا کی خاموشی کے درمیان ہر نیا جلنا زندگی اور موت کے درمیان ایک شدید جنگ میں بدل جاتا ہے خستہ حال آلات اور تھکے ہوئے طبی ہاتھوں سے لڑا جاتا ہے۔