غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کے خاندان نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگ قابض اسرائیل کی جانب سے اس پٹی پر سات ہفتوں سے ناکہ بندی مسلط کی گئی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ بھوکے اور پیاسے ہیں۔
اتوار کو ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر شائع ہونے والے ایک بیان میں پروگرام نے عالمی ادارہ خوراک نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں، انسانی ہمدردی کے کام کرنے والے کارکنوں کی حفاظت کریں اور جاری اسرائیلی ناکہ بندی اور نسل کشی کے درمیان غزہ تک امداد کے لیے فوری رسائی کی اجازت دیں۔
اقوام متحدہ کے پروگرام نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں خاندانوں کو نہیں معلوم کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔اس کی پوسٹ کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ بھی پوسٹ کیا جس میں "لیبارٹری اگلے اطلاع تک بند ہے”۔ اور ایک اور تحریر میں "غزہ کو خوراک کی اشد اور فوری ضرورت ہے”۔
حکومت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی گزرگاہوں کو خوراک، امداد، طبی امداد اور دیگر سامان کے داخلے کے لیے بند کر دیا ہے، جس سے فلسطینی بدترین انسانی بحران سے دوچار ہوئے ہیں۔
دو روز قبل اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین (یو این آر ڈبلیو اے) نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی، جو تقریباً سات ہفتوں سے جاری ہے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد کی ابتدائی مدت سے زیادہ شدید ہے۔
’انروا‘ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں 18 مارچ سے اسرائیل کے نئے حملوں کی وجہ سے 420,000 افراد دوبارہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
مارچ 2025ء کے اوائل میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ 19 جنوری سے نافذ العمل جنگ بندی منصوبے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر انتہا پسند صہیونی وزیراعظم نے اسے توڑ دیا تھا۔
تاہم عبرانی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے دوسرے مرحلے کے آغاز سے انکار کیا اور 18 مارچ کو غزہ کی پٹی میں نسل کشی دوبارہ شروع کر دی۔