پنج شنبه 24/آوریل/2025

’فاشسٹ صہیونی ریاست کےعقوبت خانےجہاں قید فلسطینیوں کے جسموں میں کیلیں گاڑی جاتی ہیں‘

جمعہ 18-اپریل-2025

غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین

فلسطینی عوام بالخصوص اسیران کے خلاف قابض اسرائیلی دشمن اور فاشسٹ ریاست کے ایک نئے جرم میں نابلس شہر سے تعلق رکھنے والے قیدی مصعب حسن عدیلی کی دوران حراست وحشیانہ تشدد سے شہادت ہے۔ عدیلی کو ایک سال قبل نابلس شہر سے گرفتار کیا گیا اور اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ حالت بگڑنے کے بعد اسے سووروکا ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ منظم طبی غفلت اور صہیونی جلادوں کی مجرمانہ لاپرواہی سے جام شہادت نوش کرگئے۔

فلسطینی کلب برائے امور اسیران اور امور اسیران کمیشن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہاکہ انہیں 20 سالہ عدیلی کی شہادت کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ اسے 22 مارچ 2024ء کو حراست میں لیا گیا تھا، اور ایک سال اور ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بیان کے مطابق شہید قیدی عدیلی کی شہادت کے بعد حالیہ عرصے کے دوران صہیونی زندانوں میں شہید ہونے والے فلسطینی اسیران کی تعداد 64 ہو گئی ہے۔ یہ قیدیوں کی وہ تعداد ہے جس کی شناخت کی گئی۔ شہید ہونے والے کم از کم 40 فلسطینی غزہ کی پٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد اسیران کی شہادت اور صہیونی عقوبت خانوں کی خونی تاریخ کا سب سے المناک باب ہے۔

اسیران کے حقوق پر نظر رکھنے والے اداروں نے مزید کہا کہ فلسطینی اسیران کے قومی دن پر قیدی عدیلی کی شہادت سفاک اسرائیلی نظام کے ریکارڈ میں ایک نیا جرم ہے جس نے قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے ہر قسم کے جرائم کو معمول بنا رکھا ہے۔

قیدیوں کے خلاف انتقام

اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے کہا کہ قیدی عدیلی کی موت قابض صہیونی اور اس کی فاشسٹ جیل انتظامیہ کی طرف سے قیدیوں پر مسلسل انتقامی کارروائیوں اور تشدد کو ثابت کرتی ہے۔ قابض صہیونی ریاست فلسطینی اسیران کے خلاف کئی اقسام کے جرائم کی مرتکب ہے جن میں ایک سنگین جرم بیماروں اور زخمیوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علاج سے محروم کرتے ہوئے انہیں سسک سسک کر موت کےمنہ میں جانے پرمجبور کرنا ہے۔

کلب برائے امور اسیران نے نشاندہی کی کہ یہ جرم فلسطینی قیدیوں کے قومی دن کے موقع پر ہوا۔ جس روز عدیلی کو صہیونی زندانوں سے رہا کیا جانا تھا، اس کی شہادت اس کے تین روز قبل عمل میں لائی گئی۔ قیدیوں کے خلاف قابض ریاست کے جرائم میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

مجرمانہ ریکارڈ

فلسطینی قیدیوں پر تشدد کا مجرمانہ صہیونی ریکارڈ گذشتہ دہائیوں کے دوران فلسطینی قیدیوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ قیدیوں کو ان کے قانونی حقوق سے محروم کرنے، بدسلوکی، تشدد اور طبی غفلت سے دوچار کرنے اور قیدیوں کے دانستہ قتل تک اسیران تحریک کے شہداء کی تعداد جن کی شناخت 1967 سے معلوم ہوتی ہے 331 تک پہنچ چکی ہے۔ ڈیڑھ سال قبل غزہ میں فلسطینی نسل کشی کی جنگ شروع ہونے کے بعد 62)قیدیوں
کو شہید کیا گیا ہے۔

سنہ1948ء کے نکبہ کے بعد سے قابض ریاست نے درجنوں جیلیں، تفتیشی مراکز، اور حراستی مراکز قائم کیے ہیں، جن میں سے اکثر کی نگرانی اسرائیلی فوج کرتی ہے۔ وہاں ہر سال ہزاروں فلسطینی قیدیوں اور نظربندوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے، انہیں قتل، تشدد اور ذلت آمیز غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار اور فلسطینی اداروں کی معلومات کے مطابق 1967ء سے اب تک دس لاکھ سے زائد فلسطینی اسرائیلی عقوبت خانوں میں ڈالے گئے جن میں دسیوں ہزار بچے بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسلیم‘ نے بھی اگست 2024 ءمیں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں اسرائیلی حراستی مراکز میں 10,000 سے زائد فلسطینیوں کے غیر انسانی حالات اور ان پر تشدد اور تذلیل کا ذکر کیا گیا تھا۔ رپورٹ کو ’’جہنم میں خوش آمدید‘‘ کا عنوان دیا گیا۔

زیادہ تر فلسطینی قیدیوں کو انسانی زندگی کے لیے ضروری سامان اور شرائط کے بغیر ان کی گنجائش سے کئی گنا زیادہ گندگی سے بھرے سیلوں میں رکھا جاتا ہے۔

قابض ریاست کے عقوبت خانوں کی تاریخ

اسرائیلی جیلوں کی تاریخ فلسطینی دیہاتوں اور قصبوں میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران صہیونی گروہوں کی طرف سے قائم کیے گئے وسیع فیلڈ حراستی مراکز سے ہے، جو 1948 کے اوائل میں شروع ہوئے اور اسی سال مئی میں قابض ریاست کے قیام کے بعد بھی جاری رہے۔

سنہ 1948ء اور 1949ء میں صہیونی بلوائیوں اور بعد میں قابض اسرائیلی فوج نے ہزاروں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ زیادہ گر ایسے لوگ گرفتار کیے گئے جنہوں نے اپنے گھر بار جبرا خالی کرنے سے انکار کردیا۔ ان میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل بھی تھے۔ انہیں خاردار تاروں سے گھرے عارضی اجتماعی حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، یا برطانوی مینڈیٹ سے وراثت میں ملنے والے تھانوں یا جیلوں میں قید کردیاگیا۔

شروع میں عارضی حراستی مراکز کا ایک گروپ سامنے آیا جنہیں سرافند اور حیفا حراستی مرکز کا نام دیا گیا۔ یہ حراستی مرکز کوہ کارمل کی اونچی ڈھلوانوں پر قائم کیا گیا تھا۔

حراست میں لیے گئے افراد کو بعد میں عارضی کیمپوں سے مرکزی حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا، جن کی نگرانی ارگن، سٹرن گینگ اور ہاگناہ کے ارکان کرتے تھے۔ وہاں انہیں مختلف قسم کی بدسلوکی، تشدد اور فاقہ کشی کے ساتھ ساتھ ملک بدری کے احکامات یا بغیر کسی الزام یا مقدمے کے پھانسی کا نشانہ بنایا گیا۔

قابض اسرائیلی نے برطانوی استبداد کے دور میں قائم کردہ حراستی کیمپوں اور حراستی مراکز کا استحصال کیا جو اس نے فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد قبضے میں لیے تھے۔ ان مراکز میں عتلیت حراستی مرکز ، سرافند لیبر سینٹر اور نئے حراستی مراکز جیسے کہ اجلیل حراستی مرکز اور ام خالد لیبر سینٹر قائم کیے تھے۔

اس وقت اسرائیل نے چار حراستی مراکز کو تسلیم کیا تھا، جس سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (ICRC) کو 1949ء کے اوائل میں ان کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔’ آئی سی آر سی‘ نے بتایا کہ زیادہ تر حراست میں لیے گئے افراد امیں لجلیل کے دیہات کے کسان تھے جنگجو نہیں تھے۔

اس عرصے کے دوران اسرائیل نے فوجی فیصلوں کے مطابق اور سیاسی منظوری کے ساتھ کیمپوں کے ایک گروپ کو نامزد کیا جسے وہ "لیبر مراکز” یا "جبری مشقت کے کیمپ” کے طور پر استعمال کرتا تھا، جہاں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی پیداواری تنصیبات میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا، خاص طور پر ان سے سخت مشقت لی جاتی۔ انہیں پتھر کی کانوں، تعمیرات اور کھدائی کے کاموں پرمجبور کیا جاتا۔

اسرائیلی تاریخ دان ’ایلان پاپے‘ اپنی کتاب "فلسطینیوں کی نسلی صفائی” میں بتاتے ہیں کہ اس وقت اسرائیلی حراستی مراکز میں تقریباً 9000 فلسطینیوں کو رکھا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر 10 سے 50 سال کی عمر کے مرد دیہاتی تھے۔

سنہ 1949ء میں اسرائیلی جیل سروس کا قیام عمل میں آیا، جس نے نئی مستقل جیلیں قائم کیں اور ساتھ ہی ساتھ اجلیل، عتلیت، سرافند، اور ام خالد جیسی عارضی جیلوں کو بند کیا۔ جیلوں کی تعمیر 1950 کی دہائی میں شسروع ہوئی جو 1966ء تک جاری رہی۔ اسرائیلی حکام 1948 میں مقبوضہ فلسطینی دیہاتوں پر فوجی حکمرانی نافذ کرنے میں مصروف رہے۔جس نے ان علاقوں کو بڑے بڑے بڑے حراستی کیمپوں میں تبدیل کر دیا۔ فوجی گورنر کی اجازت سے گاؤں سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی جاتی اور رات کا کرفیو نافذ کر دیا جاتا۔ اس طرح قابض صہیونی فوج پورے پورے گاؤں کو ایک اجتماعی قید خانے میں تبدیل کردیتی۔

سنہ 1967ء کے بعد

جون 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، جزیرہ نما سیناء اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں مزاحمتی سرگرمیاں تیز ہوئیں اور اسرائیل نے کارکنوں کو دبانے اور مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے متعدد جیلیں قائم کیں۔ ان میں عسقلان اور بیر سبع نامی حراستی کیمپ سرفہرست تھے۔

اس نے سیناء میں دو خفیہ حراستی اور جلاوطنی کیمپ قائم کیے، جن میں سے ایک نخل حراستی کیمپ تھا، جو 1968 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں 18 سے 30 سال کی عمر کے سینکڑوں نوجوان جنہیں غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا کو قید کیا گیا۔

اسرائیل نے بعد میں دعویٰ کیا کہ اس نے بے روزگار غزہ کے باشندوں کو کیمپ میں داخل کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا شکار ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کا مقصد انہیں تعمیراتی کام میں پیشہ ورانہ تربیت دینا اور پھر انہیں مغربی کنارے منتقل کرنا ہے۔

دوسرا ابو زینیما کیمپ تھا جو 1970ء میں جنوبی سینا میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیمپ میں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے فدائین کے خاندانوں کو حراست میں لیا تھا، جس کا مقصد مطلوب افراد پر دباؤ ڈالنا اور مزاحمت کو دبانا تھا۔ اس کیمپ میں چھبیس خاندانوں کو قید کیا گیا جن میں درجنوں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ جبری طور پر گرفتار کیے گئےخاندانوں میں سے ایک خاندان کے 59 ارکان تھے۔

سنہ 1973ء میں بند ہونے تک کیمپوں میں قیدیوں کی تعداد یا ان سے متعلق کوئی معلومات کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تھے۔ کئی سال بعد اسرائیلی پریس نے ان دونوں کیمپوں سے متعلق کچھ معلومات کا انکشاف کیا۔

قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے قابض اسرائیل نے 1970ء اور 1971ء میں نئے حراستی کیمپ قائم کیے۔ ان میں القاسمہ حراستی کیمپ، وادی موسیٰ ( بیت المقدس کے الطور قصبے میں قائم کردہ کیمپ) حراستی کیمپ، سینٹ کیتھرین حراستی کیمپ اور العریش حراستی کیمپ شامل تھے لیکن اس نے ان سب کو 1973 میں بند کر دیا۔

مزاحمت کو دبانے کے لیے عقوبت خانوں کا ہتھکنڈہ

اسرائیل کی جنگیں ہمیشہ نئے حراستی مراکز کے قیام سے وابستہ رہی ہیں۔سنہ 1982ء میں لبنان پر حملے اور غزہ میں ہونے والی متعدد جنگیں تھیں جن کے بعد جیلیں قائم کی گئیں۔ ان جیلوں کا قیام 1987ء کے انتفاضہ اور 2000 کے انتفاضہ الاقصی کے دوران مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت میں اضافے کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ ان کیمپوں میںدسیوں ہزار مزاحمت کاروں اور شہریوں کو قید کیا گیا۔

سنہ 1982ء میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو اس نے جنوبی قصبے انصار میں ’انصار حراستی‘ کیمپ قائم کیا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے اسے "مخلات انتسار” یعنی "انصار کا احاطہ” کا نام دیا۔وہاں 4,700 فلسطینیوں اور عربوں کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے سبھی کو 1983 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا کردیا گیا۔

یہ کیمپ کھلے علاقے میں قائم کرد سینکڑوں خیموں پر مشتمل تھا، جو خاردار تاروں سے گھرا ہوا تھا، جس میں انسانی وقار کو سر عام مجروح کیا جاتا اور وہاں لائے گئے قیدیوں پر سر عام اور ظالمانہ تشدد کیا جاتا۔ 10,000 سے 15,000 کے درمیان قیدیوں کو تین سال کے عرصے میں حراست میں رکھا گیا، جنہیں مختلف قسم کے تشدد، بدسلوکی، قتل اور ظلم کا نشانہ بنایا گی۔ سنہ 1985ء میں کیمپ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔

سنہ1984ء میں غزہ شہر کے ساحل پر انصار 2 کیمپ قائم کیا گیا، جہاں غزہ کے سینکڑوں نوجوان اور یونیورسٹی کے طلباء جنہوں نے اس سال کے بڑے مظاہروں میں حصہ لیا تھا کو قید کر دیا گیا۔ کیمپ ایک سال بعد بند کر دیا گیا، پھر 1987 کے انتفادہ کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔

تین اقسام کے حراستی کیمپ

حراستی مراکز:
یہ عام طور پر اسرائیلی فوجی تنصیبات کے اندر یا آبادکاروں کے زیر تسلط زمینوں کے اندر واقع ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو اس وقت تک حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جب تک کہ انہیں مقدمے میں نہیں لایا جاتا۔ ان مراکز میں سب سے نمایاں نابلس کے قریب حوارہ کیمپ، رام اللہ کے جنوب مشرق میں بیت ایل حراستی مرکز، بیت لحم کے قریب عتصیون حراستی مرکز، طولکرم میں کیدوم حراستی مرکز، جنین کے شمال مغرب میں سالم حراستی مرکز، اور بیت لِدّہ اور بیت لِد کے درمیان کفار یونا (بیت لِد) حراستی کیمپ شامل ہیں۔

تفتیشی مراکز:

فلسطینی اسیران کو عدالت میں منتقل کرنے سے پہلے ان سے پوچھ گچھ کے لیے کئی حراستی مرکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں کیشون سینٹر، المسکوبیہ سینٹر اور بتاح تکفا سینٹر شامل ہیں۔

  • مرکزی جیلیں اور حراستی مراکز:
  • مرکزی جیلوں اور حراستی مراکز میں تقریباً 20 جیلیں شامل ہیں، جہاں وہ سالانہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو حراست میں رکھتا ہے۔ ان جیلوں میں سب سے نمایاں گلبوا جیل ہے جو 2004 میں شمالی اسرائیل میں بیت شیان کے علاقے میں کھولی گئی تھی۔ عسقلان سینٹرل جیل برطانوی فوج کا ہیڈ کوارٹر رہ چکی ہے برطانوی استبداد کے دور میں یہاں حکام اور وفود کے درمیان ملاقاتیں بھی کرائی جاتی تھیں۔ برطانیہ نے فلسطینی انقلابیوں کو حراست میں لینے اور ان سے پوچھ گچھ کے لیے اس کے ساتھ ایک خصوصی سیکشن بھی منسلک کیا۔ فلسطین پر قبضے کے بعد قابض اسرائیل نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا اور فلسطینی مزاحمت میں اضافے اور حفاظتی قیدیوں کی تعداد میں
  • اضافے کے بعد 1970 میں اسے ایک جیل قرار دیا گیا۔

جب عسقلان جیل کھولی گئی تو اسے "تشریفہ ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس بدنام زمانہ عقوبت خانے کو فلسطینی قیدیوں پر تشدد اور اذیتوں کے لیے بدترین کیمپ قرار دیاجاتا ہے۔ اس میں قیدی جیل کے دروازے سے اپنے سیلوں میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ قیدی کے اطراف میں اسرائیلی جلاد ہوتے ہیں جو انہیں تشدد کرتے ہوئے ان کے سیلوں میں منتقل کرتےہیں۔

سنہ1970ء کی دہائی میں قیدیوں نے جیل انتظامیہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے متعدد ہڑتالیں کیں، خاص طور پر اس جبری مشقت کے حوالے سے جو انہیں ٹینک کیموفلاج نیٹنگ ورکشاپس میں انجام دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔

سنہ 1985ء میں جیل انتظامیہ کے جابرانہ اقدامات کے بعد جیل میں پرتشدد جھڑپیں شروع ہوئیں۔ ان جھڑپوں کے بعد صہیونی فوج کی لڑاکا یونٹوں اور جلادوں کو قیدیوں پر تشدد کے لیے مسلط کیا گیا۔ اس کے باوجود قیدیوں نے گدوں اور کمبلوں کو آگ لگا کر جواب دیا اور انتظامیہ کی طرف سے چلائی گئی آنسو گیس سے درجنوں افراد دم گھٹنے اور زخمی ہوئے۔

تشدد کے مکروہ حربے

ضمیر پرزنر سپورٹ اینڈ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کی ایک سابقہ ​​رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض حکام نے فلسطین پر قبضے کے بعد سے ہی فلسطینی قیدیوں پر تشدد شروع کیا ۔اسیران کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر اذیت دینے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے جاتے۔ ان میں ہولناک جسمانی تشدد، انہیں سروں کے بل لٹکانا، ان کی چھوٹی چھوٹی اور تنگ کرسیوں پر تکلیف دہ حالت میں بیٹھنے پر مجبور کرنا، کانوں کے پردے پھاڑنے والی اونچی آوازمیں بے ہودہ موسیقی۔ قابض تفتیش کاروں کی طرف سے فلسطینی قیدیوں سے اعترافی بیانات حاصل کرنے کے لیے انہیں الماریوں میں بند کرنا، ان کے جسم میں کیلیں ڈالنا، اور دیگر ہولناک طریقے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں 300 سے زائد قیدی شہید ہوچکے ہیں۔

فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پولیس اور سرحدی محافظ تفتیشی مرکز میں پہنچنے کے پہلے ہی لمحوں سے حراست میں لیے گئے افراد کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی مار پیٹ کرتے ہیں۔ مار پیٹ کے ساتھ گالی گلوچ اور توہین آمیز بدتمیزی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کا مقصد شروع سے ہی دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تفتیش کار تفتیشی مدت کے دوران زیر حراست افراد پر کمزور اور نفسیاتی دباؤ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ قیدیوں کو وکلاء کی خدمات کے حصول سے روک دیا جاتا ہے۔ قیدی 60 دن تک تشدد کے سائے میں زیر تفتیش رہتے ہیں۔ قیدیوں کو اپنے خاندانوں سے رابطے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انہیں دوسرے حراستی کیمپوں میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس دوران قیدں کو ایسے تنگ اور تاریک سیلوں میں رکھا جاتا ہے جو مرغیوں کے دڑبوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ قیدیوں کو جان سے مارنے، ان کے خاندانوں کو ایذا پہنچانے ، خواتین کے ریپ اور بچوں کے قتل کی سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ تفتیشی سیشن کے دوران طویل مدت کے لئے قیدیوں کو تکلیف دہ کرسیوں پر باندھا جاتا ہے جہاں ان کے ہاتھ پشت کے پیچھے کرسی سے باندھے جاتے ہیں جبکہ ٹانگیں فرش پر لگی ہوتی ہیں۔

انسانی حقوق گروپ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "2019ء کے اواخر میں بہت سے زیر حراست افراد کے خلاف استعمال کیے جانے والے شدید جسمانی اذیتوں اور مختلف تناؤ کی پوزیشنوں کے علاوہ، قیدیوں کو نفسیاتی دباؤ کے تحت، عبرانی زبان میں بیانات پر دستخط کرنے کے لیے بھی مجبور کیا جاتا ہے، جسے وہ سمجھ نہیں پاتے۔ انہیں نہیں بتایا جاتا کہ اس بیان میں کیا لکھا گیا ہے۔

انٹیلی جنس سروسز زخمیوں اور صحت کی حالتوں کو بھی تفتیش کے دوران زیر حراست افراد پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ وہ زیر حراست افراد کو علاج یا مدد کے بدلے اعتراف جرم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انٹیلی جنس خدمات کے ساتھ تعاون کی پیشکش مالی رقوم یا اس شخص کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے بدلے میں کی جا سکتی ہے جس سے انٹیلی جنس سروسز کو فائدہ پہنچانے والی معلومات فراہم کی جائیں۔ پوچھ گچھ کے دوران حراست میں لیے گئے شخص کو نفسیاتی دباؤ کے تحت، خاندان کے کسی فرد، بیوی یا بچے کی گرفتاری یا اس کے گھر یا جائیداد پر بمباری کرنے یا اس کے بچوں اور خاندان سے محروم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کی کوشش ہوتی ہے کہ زیر حراست افراد کو تفتیش کے مکمل ہونے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ سزا اور تشدد کے طور پر تفتیشی مراکز میں رکھا جائے۔

مختصر لنک:

کاپی