پنج شنبه 24/آوریل/2025

فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے اسرائیلی مطالبے کے بارے میں عالمی قانون اور سیاست کیا کہتی ہے؟

بدھ 16-اپریل-2025

غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین

قابض اسرائیل کسی بھی سیاسی معاہدے کی شرط کے طور پر غزہ میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے اپنے مطالبات کو پوری شدو مد کےساتھ پیش کررہا ہے تاکہ اس کے بہ قول غزہ کی پٹی میں 18 ماہ سے جاری تباہی کی جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔یہ مطالبات جنہیں مزاحمتی قوتیں مسترد کر چکی ہیں اسرائیل کے اس نظریے پر مبنی ہیں کہ فلسطینیوں کےہاتھوں میں ہتھیاروں کی موجودگی صہیونی ریاست کی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

تخفیف اسلحہ کے مطالبات قابض حکام کی جانب سے اپنی سکیورٹی پوزیشن کو مضبوط کرنے اور مزاحمتی دھڑوں کو سیاسی طور پر ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ جبکہ فلسطینی ان ہتھیاروں کو حق خود ارادیت کے حصول اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو غاصبانہ صہیونی تسلط سے آزاد کرانے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس سے ان مطالبات کے جواز کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ ایک ایسی غاصب ریاست کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو جدید ترین فضائی، زمینی اور سمندری ہتھیاروں سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ 7 اکتوبر 2023ء سے بلا تعطل بیرون ملک سے ہتھیار وصول کررہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مسلح قوتوں کے پاس غاصب ریاست کے پائے کے نہ تو ہتھیار ہیں اور نہ ہی انہیں بیرون ملک سے کوئی مدد مل رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ غاصب ریاست نے امریکی اور مغربی آشیر باد سے غزہ کا ناطقہ بند کررکھا ہے جس کی وجہ سے بیماروں کو دوا اور بچوں کو دودھ تک میسر نہیں۔

بین الاقوامی قانون میں مزاحمت

جب ان ہتھیاروں کی نوعیت پر غور کیا جائے کہ جس کے بارے میں مزاحمت پر ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے تو اس کے مختلف پہلو ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کو ایک منظم اور طاقت ور فوج کے ساتھ ساتھ ایک ایسی غاصب ریاست سے مقابلہ ہے جو جدید ترین سامان حرب وضرب سے لیس ہے۔ وہی غزہ میں خون ریزی کی ذمہ دار ہے اور مگر ’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ کے مصداق فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے کو خون خرابہ روکنے کی سبیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

قابض اسرائیلی فوج کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمت کے پاس چند ہزار ہلکے ہتھیار جن میں کلاشنکوف، ٹینک شکن ڈیوائسز، دھماکہ خیز آلات اور مقامی طور پر تیار کردہ راکٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قابض دشمن ان ہتھیاروں کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ بھلا اتنے غیرمعمولی فرق کے ساتھ فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل فوج کی کارروائیوں میں کیسے توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔ صہیونی ریاست جس کے بعد دور حاضر کے ہمہ نوع جدید ہتھیار ہونے کے ساتھ ساتھ اسے امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے فلسطینی مزاحمت سے خوف زدہ ہے۔

بین الاقوامی انسانی قانون خاص طور پر جنیوا کنونشنز اور ان کے اضافی پروٹوکول کے مطابق قبضے میں رہنے والے لوگوں کو مسلح جدوجہد سمیت ہر طرح سے قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے کا حق حاصل ہے۔ بشرطیکہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے قوانین کی پاسداری کریں۔ ان قوانین میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان فرق کرنا اور جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہ بنانا ضروری ہے۔

سنہ1949ء کے جنیوا کنونشنز کے 1977ء کے اضافی پروٹوکول ’الف‘ کے آرٹیکل 1 میں کہا گیا ہے کہ "مسلح تنازعات جن میں لوگ نوآبادیاتی تسلط، غیر ملکی قبضے اور نسل پرستانہ حکومتوں کے خلاف اپنے حق خود ارادیت کے استعمال میں لڑ رہے ہیں کو بین الاقوامی مسلح تنازعات تصور کیا جاتا ہے”۔

اس لیے قابض طاقت کے خلاف مسلح جدوجہد اس وقت تک ممنوع نہیں ہے جب تک کہ یہ بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر کی جائے۔ بلکہ اسے آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کا ایک جائز ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ قابض اس قانونی اصول سے متصادم کسی منصفانہ سیاسی تصفیے تک پہنچنے سے پہلے مزاحمت کو غیر مسلح کر نے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

سیاسی بلیک میلنگ

سیاسی دانشور اشرف سہلی نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی جنگ بندی معاہدے کے لیے پیشگی شرط کے طور پر مزاحمت کی تخفیف اسلحہ کی ضرورت ایک بھتہ خوری اور سیاسی بلیک میلنگ کی شرط ہے۔ اسرائیل کی ہتھیاروں کی صلاحیتوں کے مقابلے میں عملی طور پر مزاحمت کی محدود فوجی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے جس نے اسے غیر منصفانہ قتل میں وحشیانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے قابل بنایا ہے۔

انہوں نے اپنے مضمون ’’مزاحمت کے وہ کون سے ہتھیار ہیں جنہیں اسرائیلی غاصب غزہ سے ہٹانا چاہتے ہیں؟‘‘ میں لکھا کہ فوجی اور سیاسی حقیقت پسندی کی بنیاد پر مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی اسرائیلی شرط کے بارے میں معروضی بحث اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ "اسرائیل نے مزاحمت کو عسکری طور پر کمزور کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے‘۔

سہلی نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا خیال مکمل طور پر ناقابل عمل ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس پر بات کی جائے گی۔نہ ہی اس لیے کہ یہ فلسطینی عوام کا مستقل اور ان کا جائز حق ہے کہ وہ اپنی بقا کے دفاع اور اپنی شناخت کو مکمل طور پر مٹائے بغیر قابض ریاست کا مقابلہ کریں۔

وہ بتاتے ہیں کہ فلسطینیوں نے اپنے ہتھیار مقامی طور پر تیار کیے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح کے ہتھیار سب سے آسان ذرائع سے تیار کر سکتے ہیں، لیکن اس لیے کہ پہلے غیر مسلح کرنے کے لیے کوئی ہتھیار موجود نہیں ہے بلکہ یہ فلسطینیوں کی کوششیں ہیں کہ وہ اپنی بقا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک ہتھیار بنانے کی کوشش کریں، نہ کہ حقیقی معنوں میں ایسا ہتھیار جسے غیر مسلح کیا جا سکتا ہے”۔

قوم کا ایک ایک فرد ہتھیار

سہلی کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کے لیے ایک غیر منصفانہ فوجی نقطہ نظر سے مزاحمت فی الحال تقریباً غیر مسلح ہو چکی ہے، چاہے وہ نظریاتی طور پر ہو یا علامتی طور پر، یا یہاں تک کہ اگر وہ دھوکے کے طور پر ایسا کر رہی ہے۔ تاہم اس نے نسل کشی کے جرائم کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے ماضی کے مراحل میں اپنی بہت سی صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے۔
درحقیقت اس کے ہتھیار بنیادی طور پر ہلکے دفاعی ہتھیار ہیں جنہیں اگر ذہانت، معاشی اور لچکدار طریقے سے استعمال کیا جائے تو یقینی لیکن فیصلہ کن جانی نقصان نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر ہر چند سال بعد طوفان الاقصیٰ کو دہرانا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ تو پھر اسرائیلی کس تخفیف اسلحہ کی بات کر رہے ہیں؟!

ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل جس ہتھیار کو غزہ سے ہٹانے کی بات کر رہا ہے وہ فلسطینی عوام ہے۔ یہ یا تو لوگوں کا خاتمہ، ان کی نقل مکانی اور اکھاڑ پچھاڑ ہے، یا نسل کشی ہے، یا شاید دونوں ایک ساتھ۔ کیونکہ اصل فوجی ہتھیار بنیادی طور پر ایک مزاحمتی ہتھیار ہے جس کی صلاحیتیں محدود ہیں اور جس کا ماخذ انتہائی سادہ لوح عوام ہے۔ ان تمام لوگوں میں جن سے اسرائیل اپنے مقابلے میں ڈرتا ہے۔

اقوام متحدہ کا چارٹر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی توثیق کرتا ہے۔قابض ریاست کے خلاف مزاحمت کو بین الاقوامی قانون کے تحت اور انسانی حقوق کے تصور پر مبنی ایک جائز حق کے طور پر دیکھتا ہے۔ بہت سے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تخفیف اسلحہ ایک سیاسی عمل کے فریم ورک کے اندر ہونا چاہیے جس میں فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔ جیسا کہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے زور دیا ہے۔

فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے زور دیا ہےکہ فلسطینی عوام کو حق خود ارادیت کی اجازت دی جانی چاہیے،یعنی ایک عوام کے طور پر وجود رکھنے کا حق۔ اسرائیل کو غزہ پر قبضہ جاری رکھنے یا مغربی کنارے پر حکومت جاری رکھنے کی اجازت دینا غلط ہے”۔

العربی الجدید اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ نکبہ سے لے کر آج تک مختلف شکلوں میں نسلی تطہیر اسرائیلی حکمرانی کے تحت فلسطینیوں کی زندگی کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے، جس میں ایک خاموش نکبہ بھی شامل ہے۔

مختصر لنک:

کاپی