غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
اقوام متحدہ کے رابط دفتر برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی 7 اکتوبر 2023ء کو جنگ کے آغاز کے بعد اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کی وجہ سے بدترین انسانی صورتحال سے دوچار ہے۔
منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں ’او سی ایچ اے‘ نے وضاحت کی کہ ناکہ بندی جو کہ 2 مارچ کو کراسنگ کی بندش اور کسی بھی انسانی امداد کو داخل ہونے سے روکنے کے بعد شروع ہوئی، نے بگڑتی ہوئی صورتحال کو مزید گمھبیر بنا دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے سے انسانی امداد نہیں ملی ہے۔یہ طویل ترین مدت ہے جس کے دوران جنگ کے آغاز کے بعد سے امداد روکی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورت حال "شاید 18 ماہ قبل جنگ کے آغاز کے بعد سے بدترین ہے۔”
کراسنگز کی بندش سے قحط کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے، آبادی سے خوراک اور پانی کی بنیادی فراہمی ابھی تک روکی ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت میں 167,000 سے زائد افراد شہید زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں، جب کہ 11000 سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔
امدادی اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کی پٹی کی 91 فی صد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور "بحران کے مرحلے” یا اس سے بھی بدتر (مرحلہ تین اور اس سے اوپر) میں ہے۔
این جی اوز کے نیٹ ورک نے انکشاف کیا کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے ساتھ 6 ماہ سے 2 سال کی عمر کے 92 فیصد بچے اپنی بنیادی غذائی ضروریات حاصل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے وہ طویل مدتی صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 65 فی صد آبادی کو کھانا پکانے یا پینے کے لیے درکار صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
دو مارچ سے اسرائیلی قابض فوج نے کراسنگ کو مکمل طور پر بند کرنے کے اپنے فیصلے کے بعد غزہ کی پٹی میں خوراک، پانی اور ادویات سمیت ضروری سامان کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔