غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
فلسطینی کلب برائے امور اسیران اور فلسطینی اسیران کے امور کے سرکاری ادارے نے منگل کو کہا ہے کہ بدنام زمانہ رملہ جیل کے ملحقہ ہسپتال میں قیدی سخت ترین حالات سے دوچار ہیں، بیماریوں اور زخموں سے لڑ رہے ہیں مگر جیل کے محافظ انہیں طبی سہولت فراہم کرنے کے بجائے انہیں نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والے ایک بیان میں کمیشن نے اپنے وکیل کے حوالے سے بتایا کہ رملہ جیل کے کلینک میں کچھ قیدیوں نے اپنے ساتھ ناروا سلوک کی گواہی دی تھی۔ان میں طولکرم سے تعلق رکھنے والے28 سالہ قیدی ابراہیم ایوب شلہوب بھی شامل ہیں جنہیں 2024 ءدسمبر کو گرفتاری کے دوران قابض فوج نے 14 گولیاں ماری تھیں جن کے نتیجے میں انہیں شدید درد اور بولنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
اسیران کمیشن نے کہا کہ جیل انتظامیہ جان بوجھ کر قیدی شلہوب کے خلاف بدترین نفسیاتی تشدد کا استعمال کرتی ہے اور اسے مسلسل جان سے قتل کی دھمکیاں دیتی ہے۔
اسیران کمیشن نے قلقیلیہ سے تعلق رکھنے والے قیدی محمد فیومی کے کیس کا بھی حوالہ دیا، جن کے مثالے میں سوراخ ہے۔اس کے دائیں ہاتھ اور کمر میں گولی لگی تھی، جس کی وجہ سے وہ گرفتاری کے آغاز میں چلنے سے قاصر ہوگیا تھا تاہم ان کی صحت کی حالت میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے اور وہ بتدریج چہل قدمی پر واپس آ گئے ہیں۔
اسیران کمیشن نے بتایا کہ فیومی کو 21 نومبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسے چھ ماہ کی انتظامی حراست کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی ایک بار تجدید کی گئی تھی۔
اپنے بیان میں کمیشن نے القدس کے قصبے صور باھر سے تعلق رکھنے والے قیدی ناصر موسیٰ عبد ربہ کے معاملے پر توجہ دی، جسے 4 مارچ کو دو میٹر سے بھی کم فاصلے سے ربڑ کی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس نے وضاحت کی کہ قیدی عبد ربہ کو اس کے پاؤں میں ربڑ کی گولی ماری گئی تھی، جس کے بعد ایک محافظ نے جان بوجھ کر پوری طاقت سے اس کے پاؤں پر ٹھوکر ماری تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔
کمیشن نے کہا کہ قیدی عبد ربہ ایک سابق قیدی ہیں جنہیں 9 فروری 1988 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسے گیلاد شالیت کے معاہدے میں رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے 18 جون 2014 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور 8 اکتوبر 2025 کو ان کی رہائی متوقع ہے۔