چهارشنبه 30/آوریل/2025

منگل 1-اپریل-2025

جنیوا – مرکزاطلاعات فلسطین

یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس مانیٹر نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 15 پیرامیڈیکس اور فلسطینی ریڈ کریسنٹ اور سول ڈیفنس کے کارکنوں کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام اسرائیلی اہلکاروں اور افراد کو کٹہرے میں لانےکے لیے فوری کارروائی کرے۔

انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح میں یہ قتل عام طبی، انسانی اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے خلاف اسرائیل کے وسیع اور منظم حملوں کا حصہ ہے، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

ایک پریس ریلیز میں، یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے اس جرم کو "جدید جنگ کی تاریخ میں انسانی ہمدردی کے کارکنوں کا سب سے بڑا اجتماعی قتل عام قرار دیا۔ فیلڈ شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے تمام متاثرین کو ماورائے عدالت شہید کیا۔ جن میں فلسطینی ہلال احمر کے آٹھ پیرامیڈیکس، سول ڈیفنس کے چھ ملازمین اور ’انروا‘کا ایک ملازم شامل ہیں۔ ان کی گاڑیوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد ان کی زیادہ تر لاشیں ریت سے ڈھکے ایک گہرے گڑھے میں میں پھینک دی گئیں۔ یہ ہولناک منظر بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کشی کے مرکز میں ایک مرکزی جرم ہے۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے وضاحت کی کہ یہ جرم 7 اکتوبر 2023 ءسے طبی اور انسانی ہمدردی کے عملے کو نشانہ بنانے والے جان بوجھ کر حملوں کی ایک توسیع ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کو تباہ کرنے اور ان کی بقا کے ذرائع کو ختم کرنے کے ہتھکنڈوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

بیان کے مطابق اتوار 23 مارچ 2025ء کی صبح فلسطینی ہلال احمر کی ایمبولینس اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو نکالنے کے لیے رفح کے علاقے حشاشیش کی طرف روانہ ہوئی۔ تاہم اسے قابض فوج کی جانب سے شدید گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اندر موجود طبی عملہ زخمی ہوگیا۔ صورتحال بگڑنے پر تین اضافی ایمبولینسز زخمیوں کو نکالنے کے لیے روانہ کی گئیں جن میں ابتدائی حملے میں زخمی ہونے والے عملے کے ارکان بھی شامل تھے۔ تاہم قابض فوج نے اچانک علاقے کو سخت حفاظتی گھیرے میں لے لیا، جس کے بعد سے تمام طبی عملے سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا۔

اسی صبح رفح کے تل السلطان محلے میں سول ڈیفنس کی ایک ریسکیو ٹیم کو الحشاشیش کے علاقے کی طرف جانے کے لیے ہنگامی کال موصول ہوئی، قابض اسرائیلی فوج کی اچانک دراندازی میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ طبی عملہ اس مقام پر پھنس گیا۔ سول ڈیفنس کے چھ اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم متاثرہ علاقے کی طرف روانہ ہوئی مگر کچھ دیر بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

اسی دن شام کو قابض فوج نے عملے کے ایک رکن کو بری طرح زدوکوب کرنے کے بعد رہا کر دیا، جب کہ ہلال احمر کے نو پیرا میڈیکس، سول ڈیفنس کے چھ اہلکاروں اور یو این آر ڈبلیو اے کے ایک ملازم کے زندہ یا مارے جانے کے بارے میں کسی قسم کی خبر نہ مل سکی۔

جمعہ 28 مارچ کو بین الاقوامی ایجنسیوں کے ذریعے رابطہ کاری کے بعد ایمبولینس اور سول ڈیفنس کا عملہ علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا، جہاں مشن کے رہنما سول ڈیفنس آفیسر انور عبدالحمید العطار کی لاش ٹکڑے ٹکڑے کی گئی تھی۔ عملے نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایمبولینسز، فائر ٹرک اور ہلال احمرکی گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور جلی ہوئی دھات بن چکی ہیں۔

جائے وقوعہ پر، پیرامیڈیکس کے حفاظتی آلات کی پھٹی ہوئی باقیات ملی ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت محفوظ ہونے کے باوجود انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا تھا۔ شواہد سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ قابض فوج نے انہیں نہ صرف قتل کیا بلکہ جان بوجھ کر مقتولین کی لاشوں کو چھپا کر اور انہیں بلڈوزر اور بھاری مشینری کے ذریعے ایک گڑھے میں چھپانے کا غیر انسانی جرم کیا۔

عید الفطر کے پہلے دن اتوار 30 مارچ 2025ء کو عملہ ر ہلال احمر کے آٹھ پیرامیڈیکس کی لاشیں نکالنے میں کامیاب ہوا، جبکہ عملے کا ایک رکن تا حال لاپتہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے اسرائیلی فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔ انروا کے ایک ملازم کی لاش کے ساتھ سول ڈیفنس کے چھ اہلکاروں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ فلسطینی ہلال احمر کے شہداء میں مصطفی خفاجہ، عزالدین شاط، صالح معمر، رفعت رضوان، محمد بہلول، اشرف ابو لبدہ، محمد الحیلا اور رائد الشریف شامل ہیں۔

شہری دفاع کے شہداء میں زہیر عبدالحمید الفاررہ (فائر فائٹر ڈرائیور)، سمیر یحییٰ البحبسہ (فائر فائٹر آفیسر)، ابراہیم نبیل المغاری (فائر فائٹر آفیسر)، فواد ابراہیم الجمال (ایمبولینس ڈرائیور) اور یوسف راسم خلیفہ (ایمبولینس آفیسر) شامل ہیں۔ انروا کے شہید ملازم کی شناخت کمال محمد شحتوت کے نام سے کی گئی ہے۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر ٹیم کو دیے گئے ایک بیان میں شہیدا کی لاشوں کی بازیابی کے مشن میں حصہ لینے والے شہری دفاع کے ایک رکن، سفیان احمد نے کہاکہ "واقعہ کے فوراً بعد ہم رفح کے مغرب میں واقع جائے وقوعہ میں داخل ہوئے، ان کے ساتھ عملے کے ساتھ اقوام متحدہ ادارے ’اوچا‘ کے کوآرڈینیشن آفس کو اطلاع دی گئی۔ شہداء کی لاشیں فائر ٹرک کے پاس موجود تھیں اور ہم نے ایک چھوٹے سے بلڈوزر کے ذریعے کھدائی کا کام کیا جس کا معائنہ کرنے کے بعد ہمیں ایک لاش ملی۔

انہوں نے مزید کہاکہ "ہم نے اوچا کے ذریعے فوج سے رابطہ کیا اور دیگر لاشوں کے مقام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ اسی گڑھے میں بجلی کے کھمبے کے پاس موجود ہیں جہاں سے ہم نے العطار کی لاش نکالی تھی۔ ہم نے تلاش جاری رکھی اور گڑھے کو کھودا لیکن کچھ نہیں ملا۔ فوج کی طرف سے ہمیں دیا گیا وقت ختم ہو گیا اس لیے ہم علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے”۔

"اگلے دن ہم سائٹ کی طرف گئے اور ایک قریبی مقام پر جگہ تک پہنچےکے لیے فوج کی منظوری کا انتظار کیا۔ تقریباً پانچ گھنٹے کے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ داخلے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اس لیے ہم وہاں سے چلے گئے۔ ہمیں توقع تھی کہ ایک دن بعد سائٹ میں داخلے کی اجازت مل جائے گی، لیکن پھر بھی ہمیں منظوری نہیں ملی۔ ہم نے منظوری آنے تک کئی دن انتظار کیا۔”

مختصر لنک:

کاپی