رام اللہ – مرکزاطلاعات فلسطین
فلسطینی کلب برائے اسیران اور امور اسیران کے سرکاری ادارے نے بتایا ہےکہ قابض اسرائیلی جیلوں میں 9,500 سے زیادہ قیدی جن میں 350 سے زیادہ بچے، 22 خواتین قیدی اور 3,405 انتظامی قیدی شامل ہیں۔ یہ قیدی منظم جرائم کا سامنا کر رہے ہیں، جن سے جرائم کی انتہاء تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 63 کو دوران حراست تشدد کرکے شہید کیا گیا۔ ان میں 40 غزہ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کہ غزہ کے قیدیوں کی صفوں میں سے کئی شہداء جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
فلسطینی امور اسیران کمیشن اور فلسطینی کلب برائے اسیران نے عید الفطر اور لینڈ ڈے کے موقع پر ایک مشترکہ بیان میں مزید کہا ہے کہ اس سال کی عید الفطر اور ’یوم الارض‘ ہماری عوام کی تاریخ کے خونی ترین موقع پر آئے ہیں۔ جس میں نسل کشی کے جاری جرائم اور جامع جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نسل کشی کا ایک پہلو قیدیوں کے خلاف جیل کے نظام کے ذریعے کیے جانے والے منظم جرائم ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہےکہ جاری جارحیت اور نوآبادیاتی سازشیں فلسطینیوں کا وجود مٹانے کی کارروائیوں کی سب سے نمایاں شکل روزانہ کی منظم گرفتاری کی مہم ہے، جو کہ تباہی کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک مغربی کنارے میں تقریباً 15,700 گرفتاریوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس اعداد و شمار میں غزہ میں ہونے والی گرفتاریاں شامل نہیں ہیں، جن کا تخمینہ ہزاروں میں ہے۔ دریں اثناء نسل کشی کے آغاز سے اب تک گرفتار ہونے والی خواتین کی تعداد 500 سے زائد ہو گئی ہے اور اس تعداد میں غزہ سے گرفتار ہونے والی خواتین شامل نہیں ہیں جن کی تعداد کا اندازہ سیکڑوں میں ہے۔ مغربی کنارے 1200 سے زیادہ بچوں کو گرفتار کیا گیا۔
بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ جاری گرفتاری کی مہمات بڑھتے ہوئے جرائم اور خلاف ورزیوں کے ساتھ جاری ہیں۔ بدسلوکی اور شدید مار پیٹ کی کارروائیاں، قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے خلاف دھمکیاں، شہریوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور تباہی، گاڑیاں، رقم اور سونے کے زیورات ضبط کرنا جیسے جنگی جرائم روز کا معمول ہیں۔
واضح رہے کہ مغربی کنارے میں گرفتاریوں سے متعلق اعداد و شمار میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں قابض ریاست نے حراست میں رکھا تھا اور جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس اعداد و شمار میں غزہ کی پٹی سے گرفتار ہونے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔
اسیران کمیشن اور کلب برائے اسیران نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جیلوں اور کیمپوں میں قیدیوں کے خلاف جاری نسل کشی اور جرائم کے تناظر میں اپنی بےحسی ختم کرے۔ انہوں نے عالمی ادارہ صحت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قیدیوں کے خلاف غیر معمولی انداز میں کیے جانے والے منظم جرائم کے سلسلے میں فوری مداخلت کرے۔