غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نےزور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے لیے ایک غیر معمولی انسانی صورت حال سے دوچارہے۔ غزہ قحط کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ قابض اسرائیلی حکام نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پٹی میں ضروری سامان لانے کی زیادہ تر کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ "غزہ کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ دوسرے ہفتے تک پرتشدد جنگ جاری ہے”۔
اس نے مزید کہا کہ "ضروری سپلائی کم ہوچکی ہے اور کچھ صرف چند دن چلیں گی جب تک کہ پٹی میں ترسیل دوبارہ شروع نہ ہو”۔
بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ "انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی طرف سے اسرائیلی حکام کے ساتھ رسائی کو مربوط کرنے کی زیادہ تر کوششوں کو مسترد کر دیا جاتا ہے”۔
’انروا‘ کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے غزہ کی پٹی کی صورتحال کے حوالے سے ایک بیان میں کہاکہ "غزہ میں زندگی کے تمام پہلوؤں میں تقریباً مکمل تباہی ہے”۔
انہوں نے جنگ بندی اور امداد کے ہزاروں ٹرکوں کے داخلے کی ضرورت پر زور دیا۔بصورت دیگر "جگہ، انفراسٹرکچر اور لوگوں کے لیے موت کی سزا ہوگی۔”
’انروا‘کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اتوار کے روز غزہ کی پٹی میں قحط سے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ "غزہ کے لوگوں کے لیے خوراک کے بغیر گزرنے والا ہر دن اس پٹی کو بھوک کے شدید بحران کے قریب لے جاتا ہے۔”
لازارینی نے پٹی کی امداد کی بندش کو غزہ کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیا۔
’انروا‘ کمشنر نے مزید کہاکہ "اسرائیلی حکام کی طرف سے غزہ میں رسد کو داخل ہونے سے روکے ہوئے تین ہفتے ہوچکے ہیں۔ خوراک ہے، نہ دوا، پانی اور نہ ہی ایندھن،پٹی کو "جنگ کے پہلے مرحلے سے زیادہ طویل ناکہ بندی کا سامنا ہے”۔
وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 18 مارچ کو غزہ میں اپنی نسل کشی دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے قابض اسرائیلی جارحیت نے 830 فلسطینیوں کو شہید اور 1,787 دیگر کو زخمی کیا ہے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قابض ریاست کی جانب سے تباہی کی جنگ دوبارہ شروع ہونے اور "انخلاء کے احکامات” جاری کرنے کے بعد تقریباً 124,000 فلسطینی ایک بار پھر بے گھر ہو گئے۔