غزہ کی افطاریوں میں گوشت کے پکوانوں کی جگہ فلافل نے لے لی
غزہ ۔ مرکز اطلاعات فلسطین
رمضان المبارک وسط میں پہنچ چکا ہے اور غزہ کے فلسطینی تاریخ کے شدید بحرانوں سے گزر رہے ہیں۔ کرم شالوم راہداری کی مسلسل بندش سے اشیائے خوردو نوش کی شدید قلت ہے۔ اسی وجہ سے فلسطینی بنیادی انسانی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی جنگ سے پہلے افطار میں گوشت اور تازہ سبزیوں کے پکوان ہوتے تھے۔ لیکن اب فلافل افطار میں موجود ہے کیونکہ گوشت فلسطینیوں کی دسترس میں نہیں ہے۔
صرف فلافل باقی ہے!
شیخ رضوان مارکیٹ میں 50 سالہ ابو حمد سلیم عارضی چھتری کے نیچے فلافل کے انتظار میں ہیں۔ انتظار کی یہ قطار طویل ہے۔
انہوں نے کہا ‘پہلے ہم رمضان میں گوشت خریدتے تھے۔ لیکن اب فلافل ہی کھا سکتے ہیں۔ ایک کلو گوشت 100 شیکل کا ہے۔ اسے خریدنے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ فلافل ہی ہمارے پاس آخری آپشن ہے۔’
ام خالد نے کہا کہ ان کے خاندان نے افطاری میں گوشت نہیں کھایا ہے۔ ہمیں امید تھی کہ رمضان المبارک مختلف ہوگا۔ لیکن حالات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ جو کچھ بچا ہے وہ انتہائی مہنگا ہے۔ اب صرف فلافل ہی موجود ہے جسے تلاش کر سکتے ہیں۔ ہم سحری و افطاری میں فلافل ہی کھاتے ہیں۔’
اشیاے خوردو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں
غزہ کے بازار اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکے ہیں۔ بنیادی انسانی ضروریات دستیاب نہیں ہیں اور جو دستیاب ہے اسے غزہ کے فلسطینی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔
جیسا کہ ایک کلو چینی 15 شیکل اور ایک کلو چاول 20 شیکل کے ہیں۔ جبکہ سبزیوں اور تیل کی قمیت دو گنا ہوچکی ہے۔
الزاویہ مارکیٹ میں دکاندار محمد عبدالرحمن نے غزہ میں سنگین صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘ لوگ چیزوں کی قیمتیں پوچھتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ انڈوں کا ایک کارٹن 80 شیکل ہے۔ یہ کون خرید سکتا ہے؟ ‘
انہوں نے کہا راہداریوں کی بندش نے انسانی بنیادی حقوق چھین لیے ہیں اور تجارت تباہ ہو چکی ہے۔ فلافل کی مانگ میں اضافہ ہے لیکن اس کے اجزائے ترکیبی کی کمی اور پیداواری لاگت میں اضافہ کے باوجود اس کی قیمت میں ممکنہ اضافے کو روکنے کے لیے دکاندار کوشش کر رہے ہیں۔ کہ قیمت کے بڑھنے سے فلافل کی طلب بھی کم ہو جائے گی۔
ابو سمیر نے کہا ‘فلافل امیر و غریب دونوں کا کھانا بن گیا ہے۔ تیل، تابینی سب مہنگا ہے۔ پھلوں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو فالافل بھی ختم ہوجائے گا۔’
60 سالہ ابو محمود نصر نے کہا ‘اسرائیلی فوج کے محاصرے نے ہم سے کھانا، کام، زندگی سب چھین لیا ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ کیا کھائیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کھانے کو کچھ ملے گا؟
