اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے دوران ہر طرف تباہی کے راج اور غزہ کے سارے آثار مٹانے دینے کی اسرائیلی کوششوں کے باوجود رمضان کے دوران مسحرات کی آواز آج بھی گونج رہی ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب اسرائیل کی فوج نے پورا شہر مساجد کے میناروں سمیت ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے رمضان میں لوگوں کو سحری کے لیے جگانے کی یہ روایت آج بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔
گلی گلی سحری سے پہلے گھوم پھر کر لوگوں کو جگانے کے لیے ڈھول پیٹنے والے مسحراتی جانتے ہیں ان کا لوگوں کو جگانے کی یہ روایت رمضان کے جذبے کو زندہ وجاوید رکھتا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج غزہ سے زندگی کی ہر علامت اور فلسطینیوں کی ہر روایت کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ان مسحرات کی روایت کو جاری رکھنے والے کہتے ہیں اسرائیل کی جنگ کی ساری تباہیوں کے باوجود ہم آج بھی غزہ میں موجود ہیں۔
خیال رہے مسحراہ غزہ میں صرف ڈھول اٹھا کر رمضان کے دوران گلیوں ڈھول بجانے والا ہی نہیں بلکہ غزہ کی روایت اور ورثے کا امین بھی ہوتا ہے۔ غزہ کی پٹی میں ایک پرانے مسحراتی حاجی ابو ابراہیم ہیں۔ وہ آج بھی اپنی اس روایت کے ساتھ ہیں۔
اس نے ایک رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ جنگ نے ہر چیز کو ہم سے چھین لیا ہے مگر ہم زندگی کی علامت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ جب اسرائیلی فوج نے بمباری سے مساجد کو تباہ کر دیا تو مسحرات کے ذریعے لوگوں کو جگانے اور بلانے کا سلسلہ جاری رہا۔’
ملبے کے درمیان ڈھول یا دفاع کا پیغام !
غزہ کے شجاعیہ محلے میں بمباری سے اب صرف تباہی، کھنڈر اور ملبہ نظر آتا ہے۔ محمود بھی ایک پرانے ڈھولچی ہیں۔ وہ احتیاط سے چلتے ہوئے ملبے کے ڈھیروں پر چڑھ جاتے ہیں اور اپنے ڈھول کی ایسی آواز اٹھاتے ہیں جو اب بھی ٹوٹی ہوئی دیواروں اور ملبے کے ڈھیروں کے آر پار جا سکتی ہے۔
غزہ میں خوف کے ماحول میں رہنے والے بچے بھی سحری کے وقت ڈھول کی آواز سن کر اسے دیکھنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔
شجاعیہ محلے کے رہائشی حاجی ابو سعید کہتے ہیں’ بمباری کرنے والوں نے یہاں تک کہ خدا کے گھروں کو بھی تباہ کر دیا کہ کوئی اللہ کی طرف بلانے والی آواز نہ ابھر سکے۔ لیکن وہ رمضان کی روح کو ختم نہ کر سکے۔ بلا شبہ موت سے ہر کوئی ڈرتا ہے لیکن خاموشی بعض اوقارت زیادہ خوفزدہ کر دیتی ہے۔ ‘
اسرائیلی فوج کے محاصرے میں رہنے والے بے گھر فلسطینی سمجھتے ہیں کہ رات کے وقت باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں۔ مگر وہ ہتھیار ڈالنے سے انکاری ہیں۔
غزہ کے رہائشی نوجوان محمد، جس نے اپنے خاندان کے خوف کے باوجود مصسحرت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا نے کہا ‘ہاں مجھے ڈر ہوتا ہے کہ شاید آج کی رات آخری ہو، لیکن اگر ہم ڈھول بجانا بند کر دیں تو دنیا کو کون بتائے گا کہ غزہ کی پٹی میں رمضان کا خیر مقدم کرنے والے ابھی باقی ہیں۔