چهارشنبه 30/آوریل/2025

غزہ میں ملبے کے انبار اور فلسطینیوں کے لیے سامان افطار

بدھ 12-مارچ-2025

غزہ ۔ مرکز اطلاعات فلسطین

جیسے جیسے سورج غروب ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے تباہ شدہ غزہ کے ملبے میں رہنے والے فلسطینی خاندان کا دستر خوان افطاری کے اخوان کے ساتھ نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ دستر خوان پر کھجوروں کے علاوہ کچھ زیتون کے دانے ہیں اور روٹی کے بچے ہوئے چند ٹکڑے۔ مگر ان ملبے پر آبادی کی کوشش میں مصروف ابو محمود کا خاندان تین بچوں کے ساتھ صبر کے پہاڑ اور شکر کی چوٹی کی طرح موجود ہے۔

اگرچہ ان کا ہی نہیں آس پاس کے سارے گھر اسرائیلی بمباری سے زمیں بوس ہو چکے ہیں مگر یہ فلسطینی پورے صبر و ثبات کے ساتھ آج بھی کھڑے ہیں۔ ابو محمود، ان کی اہلیہ اور تین بچوں پر مشتمل اس خاندان جیسے ہزاروں خاندان ہیں۔ سب کی ایک ہی کہانی ہے۔ اسرائیلی قبضہ، تباہی، استقامت، قربانی اور آزادی کے جذبے کے ساتھ گھر واپسی کا خواب۔

ان سب کو غزہ سے دور کاٹ پھیکنے کی کوششیں چاروں طرف سے جاری ہیں۔ مگر یہ ہیں کہ اپنے غزہ سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ ان کے پاس اب رہنے کو گھر نہیں مگر یہ اس کے باوجود بے وطن نہیں ہونا چاہتے۔ ان کے پاس مسجد نہیں مگر ان کی پیشانیوں کے سجدے ہیں کہ تڑپ رہے ہیں۔ ان کے پاس سازوسامان نہیں مگر سحر و افطار کی روایت زندہ وجاوید اور جاری و ساری ہے۔ ایک ٹوٹ پھوٹی سی بے رنگ ہوچکی چائے دانی بھی ہے۔ جس میں اور کچھ ممکن نہ ہو تو گرم پانی کا مشروب بنا کر افطاری میں نوش جاں کریں گے۔ اسرائیل ناکہ بندی کر کے کھانے پینے کی اشیاء کو روک کر بھوک اور قحط کا ہتھیار ان فلسطینیوں پر ایک بار اس رمضان میں بھی چلا رہا ہے۔

یہی صورت حال ابو محمود کے خاندان کی ہے ایک چھوٹے سے میزنما دستر خوان پر کٹا پھٹا سا میز پوش بچھا کر ارد گرد بیٹھے ہیں۔ تاکہ اللہ اکبر کی صدا سنیں اور افطار کریں۔ وہ ملبے کے ڈھیروں پر رمضان کا ایک انوکھا تجربہ کر رہے ہیں۔ تمام مشکلات کے باوجود ان کی رمضان کے ساتھ وابستگی گہری ہے۔ وہ اس مشکل ترین جنگی تباہی اور ماحول کے باوجود رمضان کی روایات اور شعائر کے شیدائی ہیں۔ ابو محمد افطاری کے ماحول میں ملبے کے ہی ایک بڑے پتھر پر بیٹھے ہیں۔ یہ پتھر باہر عام سے سیمنٹ سے بنا بلاک ہے۔ مگر اسرائیلی بمباری اور بارود میں بھی فلسطینیوں کی طرح مضبوط ہے۔

ابو محمود اپنی اہلیہ کو بھی ان مشکلات کے باوجود ایک پتھر کی طرح مضبوط اور ثابت قدم دیکھتا ہے اور شکر کرتا ہے۔ کہ جیسے اس میں یہ سارے درد و مصائب برداشت کرنے کی اللہ نے طاقت رکھ دی ہے۔ اس کی اپنے بچوں پر بھی نظر پڑتی ہے تو انہیں بھی ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے مشکل حالات کے ساتھ نمٹنا سیکھ گئے ہوں۔

افطاری کا وقت ہوا چاہتا ہے اور ابو محمود روٹی کے ان ٹکڑوں کو اپنے بچوں میں ایسے تقسیم کرتا ہے کہ سب کو کھانے کو کچھ کچھ میسر آجائے۔ کہ خوشحال عرب دنیا کے عین بیچوں بیچ غزہ کے فلسطینی عرب اسرائیلی نرغے میں ہیں۔ ان کے لیے کھانے پینے کی اشیاء تو ایک طرف تیل اور بجلی کی بندش بھی غیر معمولی ہے۔ ادویات ان تک پہنچنے سے روکنا اسرائیل کی ترجیح اول ہے۔

ابو محمود کی بڑی بیٹی سارا اپنی ماں کی طرف جاتی ہے اور سورج کے غروب کے ساتھ اذان کے بلند ہونے کی منتظر ہے۔ وہ آہستہ سے اپنی ماں سے سرگوشی کرتی ہے اماں ! ہمارا گھر ! مگر غزہ میں تو یہ ہر بے گھر ہوچکے کی کہانی ہے۔
ماں مسکرا کر بیٹی کی طرف دیکھتی ہے اور بیٹی کا کندھا تھپتھپاتی ہے۔ لیکن ننھا محمود ایک ٹوٹی ہوئی کھلونا کار سے کھیلنے کی بیٹھے بیٹھے کوشش میں ہے۔ اس کی ساری دنیا اس کھلونے میں موجود ہے۔ وہ بڑا پر سکون ہے کہ اس کے پاس اس کا کھلونا موجود ہے۔

اسی دوران اللہ اکبر ، اللہ اکبر کا آوازہ بلندہ ہوتا ہے۔ بلا شبہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ بہار ہو کہ خزاں اللہ ہی اللہ ۔ اللہ اکبر اکبر۔

صرف اللہ کی بڑائی کو ماننے والے اور صرف اسی کے سامنے جھکنے والے ابو محمود کہتے آئیں شروع کریں ۔ روزہ کھولیں اور اللہ کا شکر کریں کہ اس نے ان حالات میں بھی سحر و افطار کا موقع دیا۔ یہ سب کچھ کھانے کو دیا ۔ الحمد للہ ۔۔۔

ابو محمود کی اہلیہ بھی شکر کے جذبے سے لبریز ہے ۔ چہرے پر خوسی و مسرت ہے کہ اللہ نے روزے کی توفیق دی۔

ابو محمود کہتے ہیں ان حالات میں بھی اللہ ہمیں کھانے پینے کو دیتا ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ سب کا پالنہار۔ سب کا رازق ۔ خیرالرازقین۔۔۔

مختصر لنک:

کاپی