مقبوضہ بیت المقدس -مرکزاطلاعات فلسطین
بدھ کے روز قابض اسرائیل کی ایک نام نہاد عدالت نے فلسطینی صحافی سعید حسنین جو 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں مقیم ہیں پر "غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ رابطوں، ایک دہشت گرد تنظیم کے ساتھ اظہار یکجہتی اور شواہد کو تباہ کرنے” کے الزامات کے تحت فرد جرم عاید کی ہے۔
اسرائیلی پبلک پراسیکیوشن نے حیفا ڈسٹرکٹ کورٹ میں 62 سالہ صحافی سعید حسنین کے خلاف فرد جرم جمع کرائی، جسے 26 فروری کی صبح سے حراست میں لیا گیا تھا۔
فرد جرم کے مطابق حسنین نے تقریباً دو ہفتے قبل الاقصیٰ ٹی وی پر ایک انٹرویو دیا تھا، جسے قابض حکام نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ "اس لیے چینل کے اراکین کے ساتھ رابطے کو غیر ملکی ایجنٹ سے رابطہ سمجھا جاتا ہے”۔
فرد جرم میں یہ بھی کہا گیا کہ حسنین نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے ساتھ ہمدردی، حمایت اور یکجہتی کے الفاظ کہے۔ اس کے اقدامات کا جواز اور تعریف کی، حماس کی طرف سے پروپیگنڈہ کیا گیا بیانیہ دہرایا، اور اسرائیل میں عربوں کو پیغام پہنچایا۔
فرد جرم میں اس بات کا حوالہ دیا گیا کہ صحافی حسنین نے اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز سے کیے گئے "انسانی سلوک” کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے مثالی قرار دیا جب کہ اس کے برعکس قابض حکومت کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک کی مذمت کی تھی‘‘۔
فرد جرم میں صحافی کی جانب سے اسی انٹرویو کے دوران اسرائیل سے بعض فلسطینیوں کی اسرائیلی فوج میں شمولیت پر سخت تنقید کا بھی ذکر کیا گیا۔
فرد جرم میں حسنین کے فلسطینی قدسنا ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا گیا، جس میں انہوں نے حزب اللہ اور بالخصوص حسن نصر اللہ کےلیے تعریفی الفاظ، ہمدردی، حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔
فرد جرم کے مطابق "غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ رابطے” اور "دہشت گرد تنظیم کے ساتھ اظہار یکجہتی” کے الزامات کے علاوہ، حسنین پر "انٹرویو کے دوران الاقصیٰ ٹی وی کے اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کے لیے استعمال کیے گئے فون کو تباہ کرنے کے بعد ثبوت کو تباہ کرنے” کا الزام عائد کیا گیا۔
اسرائیلی پبلک پراسیکیوشن نے سعید حسنین کو کارروائی کے اختتام تک رہا نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "مبینہ خطرہ خلاصہ نہیں ہے بلکہ ایک ٹھوس اور ذاتی خطرہ ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافی حسنین نے "یہ سب کچھ اس لیے کیا کیونکہ وہ اسرائیل میں عرب کمیونٹی میں ایک معروف اور بااثر شخصیت ہیں۔اس کے نتیجے میں ریاستی سلامتی کو نقصان اور خطرے کا امکان بھی زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملزم نے مختلف چینلز پر دو مختلف مواقع پر ایسا کیا اس سے بھی اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس سے کس حد تک خطرہ متوقع ہے‘‘۔
الاقصیٰ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو کے بعد حسنین کو اسرائیلی میڈیا میں اشتعال انگیزی کی مہم کا نشانہ بنایا گیا اور اسرائیل کے سیاسی اور کھیلوں کے حلقوں میں تنقید کی لہر دوڑ گئی۔