غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ایک وفد نے مصری جنرل انٹیلی جنس سروس کے سربراہ سے ملاقات میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد اور قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کی، جب کہ جماعت نے غزہ کی پٹی میں عارضی جنگ بندی کو قبول کرنے سے انکار کرتے عارضی جنگ بندی کے امریکی اور صہیونی منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔
حماس نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ جماعت کی قیادت کونسل کے سربراہ محمد درویش کی سربراہی میں ایک وفد نے قاہرہ میں مصری جنرل انٹیلی جنس سروس کے سربراہ میجر جنرل حسن رشاد سے ملاقات کی، جہاں بہت سے اہم امور پر مثبت اور ذمہ دارانہ انداز میں بات چیت کی گئی۔ خاص طور پر جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد اور اس کے مختلف مراحل میں قیدیوں کے تبادلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس کے وفد نے معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرنے اور فوری طور پر دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع کرنے، کراسنگ کھولنے اور امدادی سامان کو بغیر کسی پابندی یا شرائط کے پٹی میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
وفد نے حماس کی طرف سے غزہ کی پٹی کے انتظام کے لیے آزاد قومی شخصیات پر مشتمل کمیونٹی سپورٹ کمیٹی کے قیام کی منظوری کی بھی توثیق کی۔ انہون نے کہا کہ جب تک کہ فلسطینی قوتوں کی صف بندی نہیں کی جاتی اور قومی، صدارتی اور قانون سازی کے تمام سطحوں پر عام انتخابات منعقد نہیں کیے جاتے تب تک غزہ میں قومی کمیونٹی سپورٹ کمیٹی قائم کی جائے۔
حماس نے گذشتہ ادوار میں جنگ بندی کے لیے مصری کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور قاہرہ کی خدمات کو سراہا۔ خاص طور پر نقل مکانی کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے اور عرب سربراہی اجلاس کی میزبانی کے ساتھ غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے اور فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی حمایت پر زور دیا۔
دریں اثنا حماس کے رہنما محمود مرداوی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ثالثوں کے بارے میں جو پیغامات موصول ہورہے ہیں وہ غزہ کی پٹی میں عارضی جنگ بندی کے لیے حماس کے کھلے پن کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مرداوی نے ایک پریس بیان میں زور دیا کہ حماس اس معاہدے پر پوری طرح کاربند ہے جس میں طے شدہ تصریحات کے مطابق دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی ضرورت ہے اور یہ خبر غلط ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہفتے کی شام قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اپنے ایک اسرائیلی وفد کو دوحہ بھیجنے کے ارادے کا اعلان کیا تاکہ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے حماس کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جا سکے۔