چهارشنبه 30/آوریل/2025

قابض صہیونی زندانوں میں قید21 فلسطینی خواتین کو منظم صہیونی جرائم کا نشانہ بنائےجانے کا انکشاف

ہفتہ 8-مارچ-2025

رام اللہ – مرکز اطلاعات فلسطین

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کےمعاہدے کے بعد قابض اسرائیلی حکام نے 21 فلسطینی خواتین کو حراست میں لے رکھا ہے جنہیں دوران حراست بدترین اذیتوں اور سنگین جرائم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

فلسطینی خواتین کو گرفتار کرنے کی پالیسی سب سے نمایاں منظم پالیسیوں میں سے ایک تھی جسے قابض فوج نے تاریخی طور پر ان کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ان جرائم اور سنگین تشدد میں کم سن خواتین قیدیوں اور بڑی عمر کی خواتین کو یکساں ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔

قابض اسرائیلی جیلوں اور تفتیشی مراکز میں خواتین قیدیوں کو منظم جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ قتل و غارت گری کی جنگ کے بعد سے اس سطح پر بڑھ چکے ہیں۔

قیدیوں کے امور کے نگران سرکاری ادارے اور اسیران کلب نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک مشترکہ رپورٹ میں قابض ریاست کی جیلوں میں خواتین قیدیوں ناگفتہ بہ حالات سے متعلق سب سے نمایاں مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان جرائم میں مختلف نوعیت اور کا تشدد، فاقہ کشی، منظم طبی جرائم اور جنسی طور پر مختلف سطحوں پر ہونے والے جرائم کے تحت آتے ہیں۔

انہوں نے خواتین قیدیوں کے سیلوں پر جبر اور بار بار چھاپوں، منظم طریقے سے ان پر تشدد اور ان کے خلاف استعمال کیے جانے والے نفسیاتی تشدد کے طریقوں کا بھی حوالہ دیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم نے قتل و غارت گری کی جنگ کے دوران جو کچھ دیکھا اور آج تک خواتین کو نشانہ بنانے کے حوالے سے جو کچھ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، ان میں سے ایک پہلو گرفتاریاں ہیں، کوئی غیر معمولی مرحلہ نہیں بنتا لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ جرائم کی سطح ہے جو ان کے خلاف ہو رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ 7 اکتوبر 2023 ءکے بعد سے متعلقہ اداروں نے خواتین کی گرفتاری کے 490 کیسز رپورٹ کئے۔ ان میں نابالغ خواتین بھی شامل ہیں جن کے خلاف پیشہ ورانہ انداز میں اپنائی گئی منظم پالیسیاں شامل ہیں۔

اسیران کمیشن اور کلب نے بتایا کہ اس ڈیٹا میں مقبوضہ بیت المقدس سمیت مغربی کنارے سے گرفتار ہونے والی خواتین کے ساتھ ساتھ 1948 کے علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں جب کہ غزہ سے گرفتار ہونے والی خواتین کی تعداد کا کوئی واضح اندازہ نہیں ہے۔

دونوں اداروں کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین قیدیوں کی تعداد 21 ہے جن میں سے 17 اب بھی زیر حراست ہیں، جن میں غزہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون قیدی سیہام ابو سالم بھی شامل ہیں، جن میں ایک 12 سالہ بچی، 12 مائیں۔ ایک خاتون قیدی جو تین ماہ کی حاملہ ہے پابند سلاسل ہے۔

حراست میں لیے گئی خواتین میں 6 خواتین اساتذہ، ایک صحافی جو میڈیا کی طالبہ ہے، ایک قیدی جو کینسر کی مریضہ ہے اور دو خواتین قیدی بھی شامل ہیں جنہیں 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے سے حراست میں لیا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی