غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل کے لیے کسی انتظامی بندوبست کا حصہ نہیں بنے گی، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے اتفاق رائے سے طے پائے اور غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کے پاس ہو۔
حماس کے ترجمان حازم قاسم نے انادولو ایجنسی کو ایک بیان میں مزید کہا کہ "ہمارا موقف واضح ہے کہ غزہ کے خلاف جارحیت کے خاتمے کے بعد اس کے مستقبل کے لیے کوئی بھی انتظام قومی اتفاق رائے سے کیا جائے۔ ہم اس معاملے کو آسان بنائیں گے”۔
انہوں نے مزید کہاکہ "ضروری نہیں کہ حماس انتظامات کا حصہ بنے۔ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان انتظامات میں بالکل شامل نہیں ہونا چاہتی ہے، مگر میں واضح کردوں کہ حماس غزہ میں کسی غیرملکی طاقت کی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی”۔
انہوں نے "اندرونی قومی اتفاق رائے کے ساتھ” کیے جانے والے ان انتظامات کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی جماعت "کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت نہیں دے گی”۔
انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ کو "غزہ کی پٹی کے لوگوں کو نسل کشی کی جنگ سے آنے والی تباہی سے بچانے کے لیے ایک سنجیدہ اور حقیقی تعمیر نو کا عمل شروع کرنے کے قابل ہونا چاہیے”۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس "کسی ایسے انتظام کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوگی جو قومی اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا ہو۔نئی انتظامیہ کوقابض اسرائیلی فوج کی طرف جارحیت کے دوران کی گئی تباہی کے بعد تعمیر نو شروع کرنے کے قابل ہونا چاہیے”۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی "اس معاملے کو پورا کرنے کے لیے عرب حمایت کے ساتھ متفقہ نقطہ نظر تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں”۔
حماس کی جانب سے غزہ کے لیے کسی بھی انتظامی اسکیم پر اتفاق رائے کے معاملے پر زور ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قاہرہ میں ہنگامی عرب سربراہ اجلاس جاری ہے۔
گذشتہ فروری میں حماس نے جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی کے انتظام کے لیے سیاسی اور انتظامی طریقہ کار وضع کرنے میں انتہائی لچک کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس حوالے سے "قومی متفقہ حکومت کی تشکیل کے لیے معاہدہ کرنے نیز غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے کمیونٹی سپورٹ کمیٹی تشکیل دینے پر زور دیا گیا تھا۔
امریکی حمایت سےسات اکتوبر 2023ء سے 19 جنوری 2025ء کے درمیان اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں 160,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھیں۔ ان کے علاوہ 14,000 سے زیادہ لاپتہ ہوئے۔