غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے قابض اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ کی کراسنگ کو بند کرنے اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے کو روکنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے "سستی بلیک میلنگ اور ایک مکمل جنگی جرم” قرار دیا۔ انہوں نےاس فیصلے کو جنگ بندی معاہدے کے خلاف ایک کھلی بغاوت قرار دیا۔
حماس نے اتوار کے روز ایک بیان میں ثالثوں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو نشانہ بنانے والے صہیونی انتقامی ، تعزیری اور غیر اخلاقی اقدامات کو روکنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوری کارروائی کریں۔
حماس نے کہا کہ نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے معاہدے کے پہلے مرحلے میں توسیع کے لیے امریکی تجاویز کو اپنانے کا بیان اصل معاہدے سے متصادم انتظامات اختیار کرنا اور اپنی ذمہ داریوں اور معاہدے کے طے شدہ اصولوں سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ نیتن یاہو جو پندرہ ماہ کی وحشیانہ نسل کشی کے باوجود سیاسی حقائق کو زمین پر مسلط کرنے میں ناکام رہا، وہ آج غزہ میں قید اپنے قیدیوں اور ان کی زندگیوں پر کوئی غور کیے بغیر اپنے اندرونی سیاسی حسابات کو پورا کرنے کے لیے معاہدے کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے "۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حماس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے قابض دشمن کے الزامات محض صریح جھوٹ ہیں جن کا مقصد اپنی جاری خلاف ورزیوں کو چھپاناہے۔
حماس نے زور دے کر کہا کہ قابض اسرائیل کا رویہ معاہدے کے آرٹیکل 14 سے متصادم ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے کا طریقہ کار دوسرے مرحلے کے دوران جاری رہے گا، اور یہ کہ ضامن دوسرے مرحلے کے نفاذ پر حتمی معاہدے تک پہنچنے تک مذاکرات کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
حماس نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے حوالے سے اپنا اندھا تعصب بند کرے اور نیتن یاہو کے فاشسٹ منصوبوں کی حمایت بند کرے۔