لندن – مرکزاطلاعات فلسطین
نامعلوم حکام کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے انتظام کے لیے اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کو ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس میں جنگ سے پہلے کے مقابلے میں سخت اسرائیلی کنٹرول مسلط کرنا شامل ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے میں طے شدہ جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے قابض اسرائیل کے ارادے کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ حکومتی سرگرمیوں کے کوآرڈینیشن نے سخت کنٹرول والے لاجسٹک مراکز کے ذریعے انسانی امداد کی فراہمی کا منصوبہ پیش کیا، جہاں امداد کو سخت جانچ پڑتال کے بعد غزہ پہنچایا جائے گا۔
اخبار نے ہفتے کے روز بتایا کہ قابض حکام نے گذشتہ بدھ کو اقوام متحدہ کے نمائندوں اور جمعرات کو دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور انہیں منصوبے کی تفصیلات پیش کیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ منصوبہ ایک ایسا ورژن ہے جسے غزہ میں ایک سال سے زیادہ پہلے آزمایا گیا تھا اور اسے "انسانی بلبلے” کامنصوبہ کہا جاتا ہے اور یہ سخت کنٹرول کے تحت چھوٹے علاقوں سے امداد کی تقسیم پر مبنی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا جائے گا، "لیکن شمالی غزہ کے علاقے میں چند کوششوں کے بعد یہ تجربہ ختم کر دیا گیا تھا۔”
اخبار نے نشاندہی کی کہ علاقائی دفتر میں حکومتی سرگرمیوں کے رابطہ کے منصوبے میں فلسطینی علاقوں میں روزمرہ کی زندگی پر قابض حکام کی گرفت کو سخت کرنا شامل ہے۔
اس منصوبے سے واقف امدادی ذرائع کے مطابق، مبینہ "انسانی ہمدردی کے مراکز” کو اسرائیلی فوج کے مکمل کنٹرول میں نجی سکیورٹی کمپنیاں محفوظ کر سکتی ہیں۔
گارڈین نے بتایا کہ کرم ابو سالم کراسنگ غزہ کا واحد داخلی راستہ ہو گا جو منصوبے کے تحت امداد کے گزرنے کی اجازت دےگا۔ اخبار نے کہا کہ، منصوبے کے مطابق غزہ میں کام کرنے کی مجاز’این جی اوز‘ کو اسرائیل میں رجسٹرڈ ہونا چاہیے، اور ان کے لیے یا اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے تمام ملازمین کی جانچ ہونی چاہیے۔
برطانوی اخبار کا کہنا ہےکہ "چونکہ امداد صرف اسرائیلی کراسنگ کے ذریعے دی جائے گی۔اس لیے رفح کراسنگ کے راستے امدا فراہم نہیں ہو گے۔ ۔ اس سے غزہ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے لیے کام تقریباً ناممکن ہو جائے گا، جس پر اسرائیل کی طرف سے پابندی عائد ہے۔”
انسانی ہمدردی کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی منصوبے کو ایک ثابت شدہ حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ اسے پہلے ہی مکمل امریکی حمایت حاصل ہے اور اقوام متحدہ کے لیے اس کی مزاحمت کرنا مشکل ہو گا۔