لندن – مرکزاطلاعات فلسطین
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے باشندوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے پیش نظر سعودی عرب غزہ کے مستقبل کے لیے ایک منصوبہ تلاش کرنے کے لیے فوری عرب کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔
ابتدائی خیالات پر رواں ماہ ریاض میں ہونے والے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا، جس میں 20 فروری کو سعودی عرب کے ساتھ مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات بھی شرکت کریں گے۔
پانچ ذرائع نے رائیٹرز کو بتایا کہ ان تجاویز میں خلیجی ریاستوں کی قیادت میں تعمیر نو کا فنڈ اور حماس کو سائیڈ لائن کرنے کا معاہدہ شامل ہو سکتا ہے۔
رائٹرز کے مطابق سعودی عرب اور عرب خطے میں اس کے اتحادی ٹرمپ کے غزہ کو فلسطینیوں سے "صاف” کرنے اور ان میں سے بیشتر کو اردن اور مصر میں آباد کرنے کے منصوبے سے خوفزدہ ہیں۔ ٹرمپ کی تجویز جسے قاہرہ اور عمان نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھاخطے کے زیادہ تر ممالک اسے شدید عدم استحکام کا باعث قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ ذرائع نے مزید کہا کہ "سعودی عرب میں خوف و ہراس مزید گہرا ہو گیا ہے کیونکہ یہ منصوبہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی شرط کے طور پر ایک فلسطینی ریاست کے لیے واضح راستے کے لیے مملکت کے مطالبے کو مسترد کر دے گا، جس سے ریاض اور واشنگٹن کے درمیان ایک پرجوش فوجی معاہدے کی راہ بھی ہموار ہو گی، اس کے نتیجے میں ایران کے دفاعی نظام کے خلاف مملکت کے دفاعی نظام کو تقویت ملے گی”۔
رائیٹرز نے مزید کہا کہ سعودی عرب، مصر اور اردن کے 15 ذرائع نے عرب ممالک کی جانب سے موجودہ تجاویز کو ایک نئے منصوبے میں شامل کرنے کے لیے کی جانے والی گہری کوششوں کے بارے میں بات کی جسے امریکی صدر کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس نے ایک عرب حکومتی ذریعے کے حوالے سے کہا کہ غزہ کے مستقبل کے حوالے سے کم از کم چار تجاویز پہلے ہی مرتب کی جا چکی ہیں لیکن فی الحال ایک مصری تجویز ٹرمپ کے خیال کا متبادل پیدا کرنے کی عرب کوششوں کی بنیاد بنتی دکھائی دیتی ہے۔