رام اللہ – مرکز اطلاعات فلسطین
فلسطینی کلب برائے امور اسیران نے صہیونی جیل انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو دھمکی آمیز عبارات پر مشتمل لباس پہنانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی دشمن فلسطینی اسیران اور ان کے اہل خانہ پر تشدد اور ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ حالیہ دنوں میں رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کو جبرا نسل پرستانہ علامتوں کے لباس پہنا کر دشمن نے ثابت کیا ہے کہ اس نے فلسطینی قیدیوں اور ان کے خاندانوں کی توہین اور ان کی تذلیل وتشدد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
کلب نے ہفتے کی شام ایک بیان میں واضح کیا کہ قابض حکام کی طرف سے رہائی پانے والے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منظم دہشت گردی کے دائرے میں قابض نظام نے ایسا کوئی حربہ باقی نہیں چھوڑا جسے اس نے قیدیوں کی تذلیل، بدسلوکی اور تشدد کے لیے حربےکے طورپر استعمال نہ کیا ہو۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی جیلوں کا نظام قیدیوں پر تشدد جاری رکھے ہوئے ہے اور تمام قابض ایجنسیاں قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیتی ہیں۔ یہ اس پالیسی کی توسیع ہے جو کئی سالوں سے استعمال ہوتی رہی ہے، لیکن حالیہ آزادی کی کارروائیوں کے دوران اس میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
کلب نے نشاندہی کی کہ قابض دشمن فلسطینی قیدیوں کے خلاف جرائم پر ہی نہیں رکا بلکہ ان کے اہل خانہ کے خلاف منظم دہشت گردی کا ارتکاب کیا۔ قابض فوج نے اسیران کے گھروں پر دھاوے بول کر ان کے اہل خانہ اور بچوں کو ہراساں کیا اور گھروں میں گھس کر توڑپھوڑ اور لوٹ مار معمول بن چکا ہے۔
کلب برائے اسیران نے کہا کہ ڈیل کے تحت رہا ہونے والے قیدیوں کی اکثریت صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہے اور ان میں سے اکثر کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ انہیں تشدد کے جرائم اور طبی جرائم اور اس کے علاوہ دیگرسنگین جرائم کا نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی فوج کی ریپریشن یونٹس کو قیدیوں پر مسلط کیا گیا ہے جس کا مقصد قیدیوں کو مارنا انہیں زخمی کرنا اور صحت کے مسائل پیدا کرنا ہے جن کا بعد میں علاج کرنا مشکل ہے۔ رہا کیے جانے سے قبل جان بوجھ کر صہیونی جلاد فلسطینی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جن قیدیوں کو ہفتے کو رہا کیا گیا ہے ان میں وہ بیمار قیدی بھی شامل ہیں جو برسوں کے طبی جرائم کا شکار تھے، جن میں خاص طور پر قیدی منصور مقداد اور قیدی ایاد حریبت شامل ہیں۔
پریزنرز کلب نے خبردار کیا کہ قابض دشمن کی جیلوں میں اب بھی دس ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں اور اس تعداد میں غزہ کے تمام قیدی شامل نہیں ہیں، کیونکہ ان میں سے سیکڑوں کو جبری گمشدگی کے جرم کا سامنا ہے۔