شنبه 15/مارس/2025

غزہ: رہائی پانے والے فلسطینیوں نے زبرستی پہنائے گئے کپڑے اسرائیلی کپڑے جلا ڈالے

ہفتہ 15-فروری-2025

غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین

طوفان الاقصیٰ معاہدے کے چھٹے بیچ میں رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا جو قابض اسرائیلی حکام نے انہیں رہائی سے قبل پہننے پر مجبور کیا تھا۔یہ ایک ایسا منظر ہے جو ان کے قابض دشمن کے مجرمانہ طریقوں کو مسترد کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ جب قیدی خان یونس کے غزہ یورپی ہسپتال پہنچے تو انہوں نے وہ سفید ٹی شرٹ اتار دی جو قابض فوج نے انہیں پہننے پر مجبور کر دیا تھا۔ قیدیوں کو پہنائی گئی شرٹس پر ڈیوڈ سٹار کے ساتھ”ہم معاف نہیں کریں گے اور نہ بھولیں گے” کے الفاظ درج تھے۔

رہا ہونے والے قیدیوں نے قابض دشمن کے مجرمانہ طرز عمل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس میں ان کی تذلیل اور توہین کی کوشش کی گئی۔ انہوں اس بات پر زور دیا کہ ہمارے 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے قابض دشمن کےجرائم کا شکار ہیں۔ ہم ان جرائم کو نہیں بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے۔

خیال رہے کہ ہفتے کے روز غزہ میں القسام اور القدس بریگیڈز کی طرف سے تین اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں تین سو انہتر فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی گئی۔

رہائی پانے والے متعدد قیدیوں نے بتایا کہ انہیں حراست کے دوران انتہائی گھناؤنے تشدد، بدسلوکی اور فاقو کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی جلادوں نے ان کے خلاف نفسیاتی دباؤ کے خوفناک ہتھکنڈے استعمال کیے، انہی مکروہ حربوں میں انہیں توہین آمیز لباس پہنا کر رہا کرنا اور فلسطینی قوم میں قیدیوں کی تذلیل کرنا ہے۔

اس تناظر میں فلسطینی دانشور اور اسرائیلی امور کے ماہر ڈاکٹر مہند مصطفی کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو یہ لباس پہننے پر مجبور کرنا حالیہ واقعات کے بارے میں قابض اسرائیل کے انتہا پسدانہ نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کپڑوں کے ذریعے لگائے جانے والا نعرہ یہودیوں کی یاد میں ہولوکاسٹ کی علامت سے متاثر تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی المناک تاریخ کی توسیع کے طور پر 7 اکتوبر 2023 کے واقعات تک پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل نے اپنی سابقہ ​​تاریخ میں اس طرح کا عمل نہیں کیا تھا اور یہ طرز عمل اس کے سیاسی اور فوجی ڈھانچے میں کمزوری کی بے مثال حالت کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے قیدیوں کو یہ لباس پہننے پر مجبور کرنے کو ایک "ملیشیا ایکٹ” قرار دیا جو اسرائیلی طاقت کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ طریقہ اسرائیل کی سابقہ ​​پالیسیوں میں نہیں اپنایا گیا تھا ۔یہ فلسطینیوں اور موجودہ واقعات سے نمٹنے کے انداز میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔

مختصر لنک:

کاپی