پنج شنبه 20/مارس/2025

فلسطینی اسیران کے خلاف مظالم پر مجرمانہ عالمی خاموشی کی مذمت

اتوار 9-فروری-2025

غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین

غزہ میں قیدیوں کے انفارمیشن آفس نے کہا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے معاملے سے نمٹنے میں بین الاقوامی برادری بالخصوص مغربی ممالک کا دوہرا معیار واضح طور پر عیاں ہے۔ غاصب اسرائیل فلسطینی اسیران کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور مغرب اس پر چپ سادھے ہوئے ہے۔

دفتر نے ایک بیان میں نشاندہی کی کہ دنیا اس وقت خاموش رہی جب قیدی ناصر ابو حامد اور درجنوں دیگر قیدیوں کو دانستہ طبی غفلت کے نتیجے میں شہید کیا گیا۔ اس جرم کی کسی نے مذمت یا اس کے مرتکبین کو سزا دینے کی بات نہیں کی۔ عالمی برادری نے اس وقت انگلی نہیں اٹھائی جب سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو قابض اسرائیل کی جیلوں سے مستقل طور پر معذوری کے ساتھ، نفسیاتی اور جسمانی طور پر نڈھال اور تشدد اور زیادتیوں کے بعد رہا کیا گیا۔ دنیا نے یہ جرائم اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے مگر اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے مجرموں کی مزید حوصلہ افزائی کی گئی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر مسلط اسرائیلی محاصرے کے دوران مزاحمت کے ہاتھوں پکڑے گئے تین قابض قیدیوں کے چند کلو گرام وزن کی کمی اچانک دنیا چیخ اٹھی۔گویا انسان صرف وہ صہیونی ہی ہیں جنہیں غزہ میں جنگ کے باوجود ہرممکن سہولت دی گئی، فلسطینیوں کو انسانوں کے برابر کا درجہ بھی نہیں دیا گیا۔

دفتر نے استفسار کیا گیا "یہ شور اس وقت کہاں تھا جب قابض دشمن کے جلادوں کے سیل انسانی ذبح خانے میں تبدیل ہو گئے تھے؟” یہ تحریک اس وقت کہاں تھی جب فلسطینی قیدی جیلوں سے نکلے تو وہ خوراک، ادویات اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کی وجہ سے ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے تھے۔

اسیران دفتر نے اس بات پر زور دیا کہ اس بین الاقوامی منافقت اور قابض دشمن کے جرائم کو مسلسل نظر انداز کرنے سے اسے فلسطینی قیدیوں اور فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کے تسلسل کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔بیان میں خبردار کیا ہے کہ ان جرائم پر مسلسل بین الاقوامی خاموشی مصائب میں اضافے کا باعث بنے گی۔

اپنے بیان کے آخر میں اسیران میڈیا آفس نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ ملی بھگت اور تعصب کے دائرے سے آزاد ہو کر ان جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کریں ورنہ انصاف اور انسانیت کا دعویٰ کرنے والی دنیا ایک بار پھر ثابت کر دے گی کہ یہ ان کا انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ محض مفادات کی جنگ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ وہ پالیسی جو فلسطینیوں کے قتل، جبر اور ذلت کو جائز قرار دیتی ہے ناقابل قبول ہے۔

مختصر لنک:

کاپی