چهارشنبه 19/مارس/2025

اسرائیلی زندان زندہ فلسطینیوں کے لیے قبروں سے بھی بدتر، منظم تشدد دشمن کا وتیرہ بن چکا

اتوار 2-فروری-2025

غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین

انسانی حقوق کی تنظیم ’یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر‘ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے مفاہمت کے تحت تبادلے کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر اسرائیل کی طرف سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں اور اسیران کی بگڑتی ہوئی صحت کی حالت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انہیں حراست کے دوران اذیت ناک سلوک، بیماریوں اور ذلت آمیزجرائم کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ یہ برتاؤ ان کی رہائی تک ان کے ساتھ جارہ رہا ہے۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا کہ اس نے اسرائیلی حکام کی طرف سے قیدیوں اور زیر حراست افراد کی رہائی کی چار کھیپوں میں نگرانی کی ہے، جن میں سے آخری کھیپ کل ہفتے کو رہا ہوئی۔ جہاں ان میں سے بیشتر کی حالت ابتر تھی۔ ان میں سے ہر ایک نے جان بوجھ کر بھوک رکھنے کے نتیجے میں اپنا وزن کئی کلو گرام کھو دیا۔

قیدیوں کی رہائی کے فوراً بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کو فوری طبی معائنے کے لیے فوری طور پر ہسپتالوں میں منتقلی کیا گیا جب کہ ان میں سے کم از کم ایک دوران قید علاج سے محرومی کا شکار ہونے کی وجہ سے نڈھال ہوچکا تھا۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے زور دیا کہ یہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح اسرائیل نے اپنی جیلوں کو فلسطینی قیدیوں کے لیے منظم تشدد کے مراکز میں تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ رہائی پانے والے قیدیوں کی اکثریت کے ساتھ ناروا سلوک اور مار پیٹ کی گئی اور رہائی سے قبل آخری لمحات تک انہیں نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس مانیٹر نے وضاحت کی کہ اس کی فیلڈ ٹیم نے دیکھا کہ اسرائیلی فورسز نے بہت سے قیدیوں کو اپنے سر منڈوانے پر مجبور کیا جس کا مقصد ایک جان بوجھ کر اور ذلت آمیز اقدام ہے جس کا مقصد ان کی تذلیل کرنا اور ان کے حوصلے پست کرنا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں جیل کے کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیا اور ان پرتشدد کا گیا۔ ان کو بسوں میں لوڈ کرنے سے پہلے اور انہیں مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ قابض اسرائیلی فوج نے تمام قیدیوں اور زیر حراست افراد کو انتہائی برے حالات میں رہا کیا، جن میں ان کے عزیز و اقارب کے اجتماعات پر حملہ کرنا اور انہیں گولیوں اور گیس بموں سے نشانہ بنانا شامل ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ رہائی پانے والے قیدیوں کی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ جیل انتظامیہ کی خلاف ورزیاں حد سے زیادہ ہوگئی تھیں۔ تمام فلسطینی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا انتقام کی ایک منظم پالیسی بن گئی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی