غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے جہاد اور مزاحمت کے سفر کے بعد کمانڈر محمد الضیف کی طوفان الاقصیٰ کی جنگ میں شہادت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ انہوں نے ’طوفان الاقصیٰ‘ معرکے کی قیادت کی اور ملٹری کونسل میں اپنے بھائیوں کے ساتھ فلسطینی عسکری منظر نامے اور فلسطین کی جدید تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے۔
جمعرات کی شام ایک ٹیپ شدہ ویڈیو تقریر میں القسام کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا کہ ’ہم فخر اور غیرت کی تمام نشانیوں کے ساتھ ،تمام ضروری طریقہ کار کو مکمل کرنے اور جنگی میدان کے حالات کی طرف سے عائد تمام حفاظتی احتیاطوں سے نمٹنے ، ضروری تصدیق اور تمام متعلقہ اقدامات کرتے ہوئے القسام بریگیڈز اعلان کرتا ہے کہ ہمارے عظیم سپوتوں ، ہماری قوم اور دنیا میں آزادی اور مزاحمت کی علامت شہید عزالدین القسام بریگیڈز کی جنرل ملٹری کونسل کے سربراہ محمد الضیف اور کونسل کے دیگر ممبران جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
القسام بریگیڈز کی بانی نسل
نوے کی دہائی سے محمد الضیف کا نام فلسطینی مزاحمت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ القسام کے مجاھدین کی پہلی نسل کے جوانوں میں سے ایک تھے۔وہ بہادری ،جرات اور مزاحمت کی علامت بن گئے، لیکن فلسطینی عسکری منظر نامے میں انہوں نے گہرے اثرات چھوڑے۔
تین دہائیوں سے زائد عرصے سے الضیف نے حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کی قیادت کی ہے۔ انہیں صہیونی دشمن نے شہید کرنے کی بار بار بزدلانہ ناکام کوششیں کیں مگر وہ ہر بار دشمن کو چکمہ دے کر دشمن کو مایوس کردیتے۔ انہوں نے طوفان الاقصیٰ ک کی جنگ کا راستہ چنا، اس کا منصوبہ ڈیزائن کیا جس نے قابض دشمن کو ذلیل و رسوا کیا اور اس کے ناقابل شکست ہونے کے گھمنڈ کو پاش پاش کردیا۔ یہ الضیف کی شاندار حکمت عملی تھی کہ غزہ کے قریب تعینات اسرائیلی فوجی ڈویژن تمام تر اسلحے، جنگی سازو سامان اور ٹیکنالوجی کے باوجود القسام کے مٹھی بھر جانثاروں کے سامنے ڈھیر ہوگیا تھا۔
آبائی تعلق
محمد الضیف شہید کا اصل نام محمد دیاب ابراہیم المصری تھا۔ وہ 1965ء میں جنوبی غزہ کی پٹی کے خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو 1948ء میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے بے گھر ہو نے کے بعد غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں آباد ہوگیا تھا۔
الضیف کا خاندان پندرہ افراد پر مشتمل تھا ۔ ان کے والد رضائیاں بھرنے کی صنعت میں کام کرتے تھے۔ الضیف نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم خان یونس کیمپ کے سکولوں میں حاصل کی۔ وہ باقی فلسطینی پناہ گزینوں کی طرح اپنے گھروں، زمینوں اور جائیدادوں سے بے جبری بے دخلی کا صدمہ لے کر پروان چڑھ رہےتھے۔
وہ مزاحمت کے ماحول میں پلے بڑھے اور چھوٹی عمر سے ہی قابض دشمن کی حقیقت اور پناہ گزین کے طور پر سخت حالات سے متاثر ہوئے۔ جس کی وجہ سے وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اسلامی تحریک کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ یونیورسٹی میں انہوں نےسائنس کی تعلیم حاصل کی اور حماس کی حامی طلبا تنظیم اسلامک بلاک کے کارکن بنے۔
حماس میں شمولیت
محمد الضیف اپنے ابتدائی بچپن سے ہی حماس میں شامل ہوئے اور اس میں ایک سرگرم رکن رہے۔ انہوں نے 1987ء کے آخر میں شروع ہونے والی عظیم انتفاضہ کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انہیں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتار کرلیا۔ سنہ 1989ء کے موسم گرما میں تحریک کے عسکری ونگ میں شمولیت کے الزام میں انہیں جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت حماس کی قیادت شیخ صلاح شحادہ کے پاس تھی۔ شحادہ 2002ٰء کے موسم گرما میں شہید ہو گئے تھے۔ اس وقت حماس کے عسکری ونگ کو "حماس المجاہدین” کہا جاتا تھا۔بعدمیں اس کا نام بدل کر "القسام بریگیڈز” رکھ دیا گیا۔
سنہ1991ء میں قابض اسرائیلی حکام نے الضیف کو رہا کیا تو وہ القسام بریگیڈز کے اولین رکن مقرر ہوئے۔ انہوں نے عسکری آلات کی تشکیل نو کی۔اس وقت ان کے ساتھ شامل ہونے والے یاسر النمروت، جمیل وادی، ہشام عامر، عبدالرحمن حمدان اور محمد عاشور شہید ہوگئے تھے۔
الضیف نے کئی فدائین کارروائیوں میں حصہ لینے اور قابض افواج کے ساتھ جھڑپوں میں حصہ لینے کے بعد قابض فوج کو مطلوب ترین افراد میں شامل ہوئے۔ تاہم انہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا تاریخ کا سب سے طویل تعاقب ایک چھوٹے اور تنگ جغرافیائی علاقے میں شروع ہوا۔ اس عرصے کے دوران وہ مسلسل اپنی جگہ بدلتے اور دشمن کو چکمہ دیتے رہے۔ دُشمن انہیں زندہ مردہ پکڑنے کے لیے کوشاں رہے۔
الضیف کا کردار عماد عقل کی قاتلانہ حملےمیں شہادت کے بعد نمایاں ہوا،نومبر 1993 میں ان کا نام فدائین آپریشنز کے سلسلے میں نمایاں تھا۔ عماد عقل کے بعد محمد الضیف کو "القسام بریگیڈز” کی قیادت سونپی گئی۔
اس عرصے کے دوران الضیف کئی معیاری کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور انجام دینے میں کامیاب رہے۔ وہ مقبوضہ مغربی کنارے تک پہنچنے اور وہاں کئی خودکش سیل بنانے، الخلیل شہر میں کئی خودکش کارروائیوں میں حصہ لینے اور غزہ واپس آنے میں کامیاب رہے۔
انہوں نے 1994ء میں القدس کے قریب بیر نابالہ قصبے میں صہیونی فوجی ناچشون واچسمین کے اغوا کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا تھا، جسے ان کے اغوا کاروں کے ساتھ ان کے مقام کا انکشاف ہونے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
الضیف ایک بندوق اور واچسمین کا شناختی کارڈ لے کر منظر عام پر آئے۔ انہیں مغربی کنارے سے غزہ کی پٹی اسمگل کیا گیا تھا، اور اس نے سرخ کوفیہ سے منہ ڈھانپ رکھا تھا۔
جیسے ہی غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل ے مطلوب افراد کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا، الضیف نے گرفتاری یا شہید ہونے کے خوف سے غزہ کی پٹی چھوڑنے کی درخواست سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم قابض ریاست کے خلاف مزاحمت کے لیے بنائے گئے ہیں یا تو ہم فتح حاصل کریں گےہم شہادت کے منصب پر فائز ہیں”۔
مغربی کنارے میں دھماکہ خیز مواد کے ماہرین میں سے ایک انجینئر یحییٰ عیاش تھے۔ وہ غرب اردن سے غزہ کی پٹی میں آگئے۔ جب کہ مغربی کنارے میں اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا تھا۔ الضیف نے دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں ان کے تجربے سے استفادہ کیا۔ عیاش کو صہیونی دشمن نے 1996ء کے اوائل میں ایک بوبی ٹریپ فون کے ذریعے شہید کر دیا تھا۔
ضیف نے یحییٰ عیاش کا انتقام لینے کا عزم کیا۔ انہوں حسن سلامہ کو یحییٰ عیاش کے قتل کا بدلہ لینےکے لیے مغربی کنارے بھیجا جہاں انہوں نے فدائی کارروائیوں کی نگراکی کی۔
سنہ 1996ء کے موسم بہار میں عیاش کا بدلہ لینےکی کارروائیاں کرنے کے بعد ضیف مکمل طور پر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ صہیونی فوج نے ان کی گرفتاری کے لیے مہم تیز کردی۔ قابض فوج نے غرب اردن میں بھی گرفتاری مہم شروع کی جس میں سیکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے بھی گھر گھر تلاشی کی مہم شروع کی۔ اس نے محمد الضیف کو بھی حراست میں لے لیا۔
اس نے یہ بہانہ کیا کہ چونکہ اسرائیل ان کا تعاقب کررہا ہے۔ اس لیے انہیں صہیونی بمباری سے بچانا ہے، مگر امریکیوں کی باجگزار فلسطینی اتھارٹی ایک اور چال چل رہی تھی۔ اس نےوقت اتھارٹی نے امریکی خفیہ ایجنسی کے’سی آئی اے‘ کے تفتیش کاروں کو الضیف سے تفتیش کی اجازت دی جنہوں نے محمد الضیف پر دوران حراست بدترین تشدد کیا تھا۔
بعد ازاں الضیف غزہ میں پریونٹیو سکیورٹی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئےاور دوبارہ القسام سیل بنانے میں لگ گئے۔ انہوں نے ستمبر 2000 میں انتفاضہ الاقصی شروع ہونے تک مزید کارروائیاں کرنے کی تیاری شروع کر دی۔
سنہ2001ء میں قابض حکام کی طرف سے الشیخ صلاح شحادہ کی رہائی کے ساتھ ہی ضیف نے فوجی سازوسامان کی قیادت الشیخ شحادہ کو سونپ دی، کیونکہ شحادہ نے ضیف کو بٹالین کی فوجی صنعتوں کی ذمہ داری سونپ دی تھی جس میں انہوں نے ترقی کی اور اس میں مہارت حاصل کی۔
انتفاضہ شروع ہونے کے ایک سال بعد الضیف کو پہلی ناکام قاتلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ 22 اکتوبر 2004ء کو کی گئی اس کارروائی میں ان کے ساتھی عدنال الغول شہید ہوگئے۔ وہ القسام بریگیڈز میں دھماکہ خیز مواد کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ حملے میں ان کا بیٹا بلال بھی شہید ہوگیا۔ ایک صہیونی طیارے نے "جحر الدیک” قصبے میں ان پر میزائل داغا جس میں عدنان الغول اور ان کا بیٹا بلال شہید اور الضیف معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔
فوجی قیادت
سنہ2002ء کے موسم گرما میں شحادہ کی شہادت کے بعد تحریک کی قیادت نے الضیف کو عسکری امور کی قیادت کی ذمہ داری واپس کر دی۔
چھبیس ستمبر 2002ء کو شحادہ کی شہادت کے تین ماہ بعد الضیف دوسری قاتلانہ کوشش میں بھی بچ گئے جب کہ ان کے دو ساتھی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ الضیف کو تیسری مرتبہ قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا جب سنہ 2006 کے موسم گرما میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی گرفتاری کے بعد اسرائیلی فوجی آپریشن کے دوران ایک گھر پر بمباری کی گئی، جہاں یہ کہا گیا کہ وہ شدید زخمی ہوگئےتھے تاہم القسام بریگیڈز نےاس کی تصدیق نہیں کی۔
کمان سنبھالنے کے بعد سے الضیف نے قابض اسرائیلی دشمن کے خلاف متعدد خودکش کارروائیوں کی ہدایت کی ہے۔ ان کا شمار حماس کی عسکری صلاحیتوں کو فروغ دینے میں سب سے نمایاں انجینئروں ہونے لگا۔ انہوں نے مقامی سطح پر راکٹ سازی اور فوجی سرنگوں کا نیٹ ورک قائم کرنے کی ایک نئی جنگی ترکیب اختیار کی۔
طوفان الاقصیٰ کی قیادت
سات اکتوبر 2023 کو الضیف نے طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے آغاز کیا۔ انہوں نے اس آپریشن کی خود نگرانی کی۔ اس کے بعد میدان میں اتر گئے اور شہادت تک دشمن سے لڑتے رہے۔
اس کے میدان میں اس وقت تک شرکت کی جب تک وہ شہید نہ ہو گئے۔
طوفان الاقصیٰ کی کئی ایک وجوہات تھیں۔ ان میں قابض صہیونی دشمن کا توسیع پسندانہ اور غاصبانہ طرز عمل، تنازعات کے حل کے بجائے فلسطین پر قبضے کی سازشیں کرنا، القدس اور مقدس مقامات پر صہیوی اجارہ داری اور حاکمیت مسلط کرنا مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کی سازشیں تیار کرنا اور اس کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کا قیام اہم وجوہات تھیں۔
ناکام قتل اور آہنی عزم
اگرچہ اسرائیل نے محمد ضیف کے خلاف کم از کم کئی قتل کی کوششیں کیں، لیکن وہ ان سب میں بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے۔ان میں سے کچھ حملوں میں انہیں شدید چوٹیں بھی آئیں۔ ان میں سے سب سے خطرناک کوشش 2014ء میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران ہوئی، جب قابض طیاروں نے ان کے گھر کو نشانہ بنایا۔ اس جارحیت میں ان کی اہلیہ اور بیٹا شہید ہوگئے تھے لیکن الضیف ملبے کے نیچے سے نکل کر ایک بار پھر میدان کارزار میں پہنچ گئے۔
جنگ میں موجود ایک شیڈو لیڈر
محمد الضیف میڈیا میں بہت کم دکھائی دیے۔ان کے بارے میں صرف چند آڈیو ریکارڈنگز معلوم ہوتی ہیں، لیکن وہ قابض دشمن کے ساتھ ہر محاذ آرائی میں مضبوطی سے پیش پیش رہتے ہیں، کیونکہ انہیں فوجی حکمت عملیوں کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے قابض ریاست کے خلاف مزاحمت اور جنگ کی نوعیت کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
سنہ 2021ء میں "سیف القدس” کی جنگ کے دوران یروشلم اور مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں تل ابیب کو میزائلوں سے نشانہ بنانے کی حکمت عملی کے پیچھے الضیف کا ہاتھ تھا، جس نے ایک نئی ڈیٹرنس کو نافذ کیا۔
اسرائیل کا نمبر ون دشمن
کئی دہائیوں سےقابض اسرائیل نے محمد ضیف کو اپنی مطلوب افراد فہرست میں سرفہرست رکھا ہے۔ انہیں صہیونی ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی سب سے خطرناک فلسطینی شخصیت تصور کیا جاتا۔ تمام تر انٹیلی جنس کوششوں کے باوجود قابض دشمن ان تک پہنچنے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے وہ ایک افسانوی اور خوفناک خواب میں بن کر رہ گئے۔ ان کی وجہ سے دشمن کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ وہ دشمن کے ہاتھ زندہ تو نہ لگے مگر اپنی شہادت کی تمنا پوری کرتے ہوئے دشمن کی جارحیت کا نشانہ بن کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔
قائد محمد الضیف ایک شہید کے طور پر رخصت ہو گئے، لیکن ان کی بھرپور تاریخ اور اور مسئلہ فلسطین پر ان کے اثرات ان کے فنگر پرنٹس کی طرح موجود رہیں گے۔ وہ فلسطینی مزاحمت، ثابت قدمی اور بہادری کی ایک مثال کے طور پر دیکھے جائیں گے اور ان کا نام ہمیشہ حریت پسندوں اور زندہ ضمیر انسانوں کے لیے حوصلے اور ، عزم اور طاقت کا ذریعہ ثابت ہوگا۔