غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
دو فلسطینی نرسوں نے شمالی غزہ کی پٹی شہید کمال عدوان ہسپتال پر قابض صہیونی فوج کی وحشیانہ جارحیت پر بات کرتے ہوئے روپڑیں، انہوں نے ہسپتال میں اپنی حراست کے حالات کے بارے میں ہولناک تفصیلات بیان کیں، جنہیں قابض اسرائیلی فوج فوج نے جبری طور پر دیگر مریضوں اور ڈاکٹروں کے ہمراہ ہسپتال سے نکال باہرکیا تھا۔ قابض صہیونی فوج نے ہسپتال میں آگ لگا دی تھی۔ جس کے نتیجے میں طبی عملے کے کارکنوں اور مریضوں سمیت کئی افراد زندہ جل کر شہید ہوگئے تھے۔
دونوں نرسوں نے بتایا کہ قابض صہیونی فوج نے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے ہسپتال پر بمباری کی اور توپ خانے سے شیلنگ کی، جس کے نتیجے میں متعدد کارکن، مریض اور زخمی شہید ہوگئے۔
اس کے بعد قابض صہیونی فوج کی بھاری نفری ہسپتال کا گھیراؤ کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی اور ہسپتال کے ڈاکٹروں، عملے، بےگھر افراد، زخمیوں اور بیماروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔
قابض فوج نے مردوں کو الگ کھڑا کرکے گن پوائنٹ پر ان کے کپڑے اتروا دیے اور اس کے بعد دیر تک انہیں سردی میں کھڑے رکھا گیا۔
ان دونوں نرسوں نے بتایا کہ انہیں پٹی کے شمال میں سب سے قریب واقع غزہ شہر پہنچنے میں سخت بمباری سخت حالات میں 8 کلومیٹر سے زیادہ پیدل سفر کیا۔
فلسطینی نرس شروق الرنتیسی جسے اسرائیلی فوج کے دھاوے کے بعد کمال عدوان اسپتال چھوڑنے پر مجبور کیا گیا نے کہا کہ "ہمیں حیرت ہوئی کہ فوج نے ہسپتال کا محاصرہ کیا اور آرکائیوز کو جلا دیا، کیونکہ آگ باقی شعبوں تک پھیل گئی تھی”۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے فوج کو ہسپتال خالی کرنے کے لیے مطلع کیا۔ جو زخمی پیدل چل سکتے تھے، انہیں وہاں سے جانے کے لیے کہا گیا۔
اس نے نشاندہی کی کہ فوج نے مردوں کو خواتین سے الگ کیا۔ پھر وہ ہمیں گروپس میں لے گئے اور کپڑے اتارنے سے انکار کرنے والوں کو مارا پیٹا گیا اور موبائل فون بھی ضبط کر لیے گئے۔
قابض فوجیوں نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنے کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔
شروق نے کہا کہ "ایک فوجی جیپ ہمارے آگے اور دوسری ہمارے پیچھے سے مسلسل نگرانی کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ہمیں غزہ شہر کے قریب ایک علاقے میں چھوڑ گئے”۔
اس نے نشاندہی کی کہ وہ "باقی لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی جو ہسپتال میں تھے، لیکن تقریباً 25 سے 30 لوگ ہیں جن کے بارےمیں کسی قسم کی معلومات نہیں۔
جب کہ شہری ماہا مسعود نے واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ "آدھی رات کو قابض فوج نے ہسپتال کے اطراف میں فوجی آپریشن شروع کیا۔ صبح ہوتے ہی فوجیوں نے اس پر دھاوا بول دیا اور بندوق کی نوک پر ہمیں وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا”۔
انہوں نے کہا کہ”قابض فوجیوں نے اپنے ٹینکوں کے اندر سے ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹرحسام ابو صفیہ کو مریضوں طبی عملے اور بے گھر لوگوں کی جگہ خالی کرنے کے لیے فون کرنا شروع کردیے”۔
ماہا جو ہسپتال کے اندر بے گھر ہو گئی تھیں نے مزید کہا کہ "انہوں نے ہماری انسانی حالات کا کوئی خیال کیے بغیر، سب کو چوک کی طرف جانے کو کہا”۔
اس نے وضاحت کی کہ ہسپتال کو مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا تھا۔ وہاں موجود افراد کو سخت حالات اور شدید سردی میں قریبی علاقے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
شمالی غزہ کی پٹی سے ان کے نکلنے کے بارے میں ماہا نے اشارہ کیا کہ اسرائیلی ٹینک بے گھر افراد کے ساتھ ہسپتال سے نکلنے کے وقت سے لے کر غزہ شہر کے مضافات میں قریب ترین مقام تک پہنچنے تک ان کا ساتھ دیتے رہے۔اس نے کہا کہ "فوجیوں نے ہمیں خبردار کیا کہ چلتے وقت پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ ورنہ انہیں گولی ماردی جائے گی”۔
اسرائیلی فوجیوں نے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی برہنہ کیا، خواتین کے نقاب کھینچ ڈالے اور انہیں ہسپتال کے صحن میں گھیسٹا، مارا پیٹا، بوڑھوں اور بچوں کے ساتھ ان کی آہ وفریاد کے باوجود بے رحمانہ سلوک کیا گیا۔
ماہا نے مزید کہا کہ باہر نکلتے وقت بچے، معذور اور زخمی لوگ درد کی شدت اور حالات کی مشکل سے رو رہے تھے لیکن فوجیوں نے ان کی حالت کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی انہیں کوئی مدد فراہم کی”۔
ہسپتال کے اندر ان کے محاصرے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ بھوک، پانی کی کمی اور شدید محاصرے کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے سخت حالات کے باوجود وہاں سے جانے سے انکار کیا۔ بالآخر قابض فوج نے انہیں زبردستی ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
جمعہ کو قابض فوج نے بیت لاہیہ میں کمال عدوان ہسپتال کے علاقے میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔ فوج نے ایک بیان میں کہا کہ "401 ویں بریگیڈ کی جنگی ٹیم کی افواج 162 ویں ڈویژن کی کمان میں ملٹری انٹیلی جنس سروس اور جنرل سکیورٹی سروس (شین بیٹ) کی انٹیلی جنس رہنمائی کے تحت کمال عدوان ہسپتال پر جارحیت کا ارتکاب کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے امریکی مادی، فوجی اور سیاسی مدد سے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب جاری رکھا ہوا ہے، جس میں 153,000 سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ 11,000 سے زیادہ فلسطینی لاپتہ ہیں۔