غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
غزہ کی پٹی کے مکینوں کے المیے کی کہانی میں کئی تاریک باب ہیں، جو 14 ماہ سے زائد عرصے سے قابض اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں۔ ان میں سے سب سے تاریک باب وہ ہے جو قیدیوں سے متعلق ہے۔ فلسطینی اسیران پر صہیونی زندانوں میں ظلم وتشدد کے ناقابل بیان ہھتکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
جنگ کے مہینوں کے دوران قابض صہیونی حکام ابھی تک جبری طور پر لاپتہ کیے ان فلسطینیوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی البتہ یہ تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔
کئی ماہ کے ظلم وستم سہنے کے بعد رہا ہونے سے کچھ فلسطینیوں نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی ہولناکی کے لرزہ خیز واقعات کا انکشاف کیا ہے۔قیدیوں پر تشدد کے ایسے مناظر سامنے آئے ہیں جن کا تصور بھی محال ہے۔
اسرائیلی فوج زمینی حملے کرتی ہے، کسی قصبے اور رہائشی علاقوں پر چھاپہ مارتی ہے وہاں کے لوگوں کو پکڑتی ہے، ہتھکڑیاں لگاتی ہے۔ انہیں غیرانسانی گاڑیوں میں لادتی ہے،ان کی آنکھوں پرپٹی باندھی جاتی ہے اور ہتھکڑیاں لگائی جاتی ہیں،بہت سے معاملات میں ان کے کپڑے اتار دیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں کیمپوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ قابض فوج یا جیل کے تہہ خانوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ قیدیوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں۔ پھر ان سے بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ تحقیقات شروع ہوتی ہیں، جس کے ساتھ منظم تشدد، ذلت آمیز برتاؤ، رسوائی اور انسانیت کی توہین کی جاتی ہے۔
اس کے بعد انہیں ماورائے عدالت شہید کردیا جاتا ہے یا کسی اور عقوبت خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ طبی غفلت کا شکا کیا جاتا ہے اور مسلسل بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس وقت توہین آمیز برتاؤ سہنے والے فلسطینی اسیران کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
حال ہی میں رہا ہونے والے غزہ کے قیدیوں کی شہادتوں کے مطابق ان پر شدید تشدد کیا گیا جس سے ان کی عزت اور انسانیت متاثر ہوئی۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی جو کہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک جاری رہی جسم کے تمام حصوں پر انہیں مارا پیٹا گیا۔ رفع حاجت سے روکا گیا تھا اور انہیں اپنے کپڑوں میں رفع حاجت کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ ان کے جسموں کی حالت اور جسم پر تشدد کے نشانات ان پر ظلم کی گواہی دیتےہیں۔
ایک ستر سالہ فلسطینی قیدی نے رہائی کے بعد بتایا کہ اسے مارا پیٹا گیا، اس کی تذلیل کی گئی، اس کی عزت پامال کی گئی، پولیس کے کتوں نے قیدیوں پر چھوڑ دیا گیا، لاٹھیوں سے مارا پیٹا اور ہڈیاں توڑ دی گئیں۔
سات اکتوبر کے بعد غزہ کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی انتقام کی ایک شکل انہیں جیلوں میں ڈالنا اور قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار کرنا بھی ہے۔
الجزیرہ نیٹ ورک سےبات کرتے ہوئے سابق اسیران نے دکھایا کہ ان کی حراست کے دوران ان کے ساتھ کیسے وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا "انہوں نے ہمیں مارا پیٹا، ہم پر نفسیاتی تشدد کیا، ہمیں ہتھکڑیوں میں باندھ کر رکھا، کسی کو ہلنے یا کھانے پینے کی اجازت نہ دی، جب کہ ہمیں سخت سردی میں چھوڑ کر، ہمارے تمام کپڑے اتاردیے گئے‘‘۔
ایک اور سابق قیدی نے بتایا کہ "زخمیوں کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ زخمی قیدی ہفتوں تک اپنےدرد کی شکایت کرتے ہیں مگر انہیں مسلسل اور دانستہ نظرانداز کیا جاتا ہے۔
رہائی پانے والے 18 قیدی یورپی ہسپتال منتقل کیے گئے جہاں ان کا طبی معائنہ کیا گیا۔ انہیں اسرائیلی فوج نے کارم ابو سالم کیمپ سے رہا کیا۔
سینٹر فار پریزنر اسٹڈیز نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیلی فوج کے جرائم نسلی تطہیر اور دسیوں ہزار افراد کے منظم قتل اور اس پٹی میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو تباہ کرنے تک محدود نہیں۔ اب جرائم میں قابض فوج نے غزہ کی پٹی سے ہزاروں لوگوں کی اجتماعی گرفتاری اور ان میں سے سیکڑوں کو ماورائے عدالت شہید کیا ہے۔
ہیومن رائٹس سینٹر نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں مزید کہا تھا کہ ان واقعات میں سے ایک حال ہی میں شمالی غزہ کی پٹی میں پیش آیا، جس میں 3 قیدیوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔انہیں سودانیہ کے شمال مغرب میں واقع علاقے میں ہفتوں کی حراست اور تفتیش کے بعد رہا کیا مگر جیسے ہی وہ غزہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں شہید کردیا گیا۔
مرکز نے کہا کہ”گرفتاری کے واقعات شمال سے جنوب تک پٹی کے تمام شہروں اور قصبوں میں پیش آئے۔ قابض فوج نے 8,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو گر فتار کیا انہیں گھروں پر چھاپے مارنے،سکولوں اور ہسپتالوں میں پناہ گاہوں پر حملوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔