چهارشنبه 30/آوریل/2025

جنگ کی آڑ میں مسجد ابراہیمی کی تاریخی حیثیت تبدیل کرنے کا گھناؤنا منصوبہ

ہفتہ 30-نومبر-2024

الخلیل – مرکزاطلاعات فلسطین

اسرائیلی میڈیا نے غزہ کی پٹی پر جاری نسل کشی کی جنگ کی آڑ میں الخلیل  شہر میں واقع تاریخی مسجد ابراہیمی کی تاریخی اسلامی، فلسطینی اور عرب حیثیت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

قابض حکومت کے اتحاد سے تعلق رکھنے والے وزراء اور کنیسٹ کے ارکان کی حمایت یافتہ اس منصوبے کا مقصد مسجد ابراہیمی پر یہودیوں کی اجارہ  داری کو مزید مضبوط کرنا ہے۔

عبرانی ویب سائٹ "زمان اسرائیل” نے کہا ہے کہ "اس منصوبے کا مقصد مسجد ابراہیمی کو یہودیوں کے قومی ورثے میں تبدیل کرنا ہے، جس میں اس جگہ کو ضبط کرنا اور اسے مسجد الاقصیٰ کی دیوار براق کے مشابہ بنانا ہے تاکہ یہودی زیادہ سے زیادہ تعداد میں وہاں پر دھاوے بول سکیں۔

اس منصوبے کو ممتاز امریکی شخصیات کی حمایت حاصل ہے جن میں نو  منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔

الخلیل میں قائم کریات اربع  یہودی بستی کے سربراہ نے کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت کے وزراء نے آباد کاروں کے فائدے کے لیے بڑے سرپرائزز دیے ہیں۔ ان میں مسجد ابراہیمی میں یہودیوں کی عبادت کے حوالے سے "بنیادی پیش رفت” شامل ہے۔

اس انے کہا کہ گولڈسٹین کے قتل عام کے بعد شمگار کمیٹی کی طرف سے مسجد ابراہیمی میں مسلمانوں  کو نماز اور عبادت کے حوالے سے جو انتظامات کیے گئے تھے وہ پرانے ہو چکے ہیں۔ اس وقت سے دنیا بہت بدل چکی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان فیصلوں پر نظرثانی کی جائے،‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ’’عرب گھر میں نماز کیسے پڑھ سکتے ہیں، جب کہ ہم باہر کھلے آسمان تلے رہتے ہیں؟‘‘۔

رپورٹ میں مسجد ابراہیمی پر مستقل قبضےاور مسجد ابراہیمی میں ہونے والی یہودیوں کی مذہبی تقریبات کا حوالہ دیا گیا ہے جو گذشتہ ہفتے کومسجد  ابراہیمی مسجد کے اندر ہزاروں آباد کاروں کی شرکت کے ساتھ منعقد کی گئی تھیں۔ اس میں بڑی سیاسی موجودگی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ ان تقریبات میں اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر، انتہا پسند وزیر خزانہ بزلیئل سموٹرچ اور سیڑک اوریٹ شامل ہیں۔

نیتن یاہو کی قیادت میں لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کنیسٹ کے رکن، اویچائی بارون نے کہا کہ ٹرمپ کا انتخاب ابراہیمی مسجد کو اسلامی اوقاف کے کنٹرول سے چھیننے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اس نے اسے نماز کے لیے ایک جدید جگہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ موجودہ ہجوم کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گی۔

جبکہ کنیسٹ ممبر زیوی سککوٹ نے کہا کہ یہودیوں کے لیے جو جگہ مختص کی گئی ہے وہ مسجد ابراہیمی کے رقبے کا 35 فیصد ہے۔ اس  نے مزید کہا کہ یہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔ لہذا ہم یہودیوں کی عبادت کے انتظامات کو وسیع کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ دن کے تمام اوقات میں پورے مقدس مقام کو شامل کیا جا سکے۔

سککوٹ نے مزید کہا کہ ان تجاویز میں "سائٹ کے انتظامی اور لاجسٹک کنٹرول کو تبدیل کرنے کے لیے ڈرامائی اقدامات شامل ہیں”۔

مختصر لنک:

کاپی