جمعه 24/ژانویه/2025

’غزہ میں فلسطینیوں پر جو ظلم دیکھا اس کے بعد زندگی کے بارے میں سوچ بدل گئی‘

ہفتہ 23-نومبر-2024

نیو یارک – مرکزاطلاعات فلسطین

پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر طلال علی خان جنہوں نے غزہ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کے اسرائیلی جرائم کے دوران غزہ کی پٹی میں کئی ہفتے خدمات انجام دیں، انہوں نے کہا کہ پٹی میں ہونے والی ہولناکیوں کے نتیجے میں زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بدل گیا۔ فلسطینیوں کے سانحات اوران کی پریشانیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے کے بعد زندگی کےبارے میں اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔

علی خان، فلسطینی امریکن میڈیکل سوسائٹی کی ایمرجنسی میڈیکل ٹیم میں نیفرولوجی کنسلٹنٹ، اوکلاہوما یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔  انہوں نے غزہ کے ہسپتالوں میں 16 جولائی سے 7 اگست تک فلسطینی مریضوں کی خدمت کی۔

انادولو سے بات کرتے ہوئے طلال علی خان نے وضاحت کی کہ وہ "اقوام متحدہ کی چھتری تلے غزہ کی پٹی گئے تاکہ ان فلسطینی مریضوں کو طبی خدمات فراہم کی جا سکیں جو انتہائی خراب حالات میں رہ رہے ہیں”۔

انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ میں ڈاکٹروں اور صحت کے شعبے کے کارکنوں کو اسرائیلی حملوں کے درمیان بڑے خطرات کا سامنا ہے”۔

علی خان نے مزید کہا کہ "غزہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منظم انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے، اور ان میں سے اکثر کو اسرائیل نے ایک سے زیادہ مرتبہ نشانہ بنایا ہے”۔

خان نے کہا کہ  "اگرچہ ڈاکٹر اقوام متحدہ کےزیرنگرانی غزہ جاتے ہیں لیکن انہیں جنگ سے تباہ حال پٹی میں اپنے قیام کے دوران بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غزہ میں ہر طرف ڈاکٹروں کے دائیں اور بائیں وقتاً فوقتاً بلا تفریق بم گرتے ہیں”۔

علی خان نے نشاندہی کی کہ "غزہ میں الشفاء ہسپتال کو اسرائیلی حملوں میں تباہ کر دیا گیا۔ ڈائیلاسز یونٹ جلا دیے گئے تھے، ہسپتال نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں تقریباً 450 مریضوں کی مدد کی تھی”۔

منگل کو غزہ کی پٹی میں وزارت صحت نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک پٹی میں ایک ہزار ڈاکٹروں اور نرسوں کو موت کی نیند سلا دیا  ہے اور درجنوں ہسپتالوں کو تباہ کر دیا ہے۔

زندگی پر میرا نظریہ بدل گیا

ڈاکٹر طلال علی خان نے وضاحت کی کہا کہ ان کے لیے غزہ کا مطلب "مزاحمت اور عزم ہے۔ اس کے فلسطینی باشندے اس سے کہیں زیادہ خاص لوگ ہیں جتنا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا”۔

انہوں نےکہا کہ "غزہ سے واپسی کے بعد زندگی کے بارے میں میرا نقطہ نظر بدل گیا ہے۔ زندگی کے دباؤ اور پریشانیاں اب میرے لیے  کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ میں نےغزہ کے لوگوں کی طرف سے آنے والی آفات اور مشکلات کو دیکھا”۔

ڈاکٹرعلی خان نے کہا کہ میں  علاج کروانے والے مریضوں میں سے ایک کے اخلاق اور سخاوت سے بے حد متاثر ہوئے۔  جب میں  نے مریضوں کے علاج کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے شکریہ کے اظہارکے طور پر انہیں چائے کا کپ پیش کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ "ان لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن ان کے دل بہت بڑے ہیں”۔

سکولوں اور مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا

ڈاکٹرعلی خان نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی فوج جان بوجھ کر سکولوں، مساجد اور لائبریریوں کو وحشیانہ طور پر نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نشاندہی کہ میں نے جو تباہی دیکھی ہے وہ کہیں اور نہیں دیکھی‘۔

انہوں نے کہا کہ "گذشتہ اگست میں غزہ میں اپنی ڈیوٹی کے دوران انہوں نے اسرائیلی فوج کو تقریباً 16 بار سکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھا۔اس کے نتیجے میں وہاں بے گھر افراد کی موجودگی کے نتیجے میں قتل عام ہوا”۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میں نے غزہ میں ایک بھی مسجد نہیں دیکھی جو سلامت ہو”۔

فلسطینیوں کے جنگ کے باوجود زندگی جاری رکھنے کے عزم کے بارے میں ڈاکٹرعلی خان نے کہا کہ "میں نے خیموں میں بچوں کو عارضی جگہوں پر جاتے ہوئے دیکھا جہاں خواتین قرآن پاک پڑھاتی تھیں اور طلباء کو تعلیم فراہم کرتی تھیں”۔

انہوں نے کہا کہ مجھے فلسطینیوں کے ثابت قدم  رہنے، آگے بڑھنے اور  خون کی ندیاں بہہ جانے کے باوجود زندگی کی امنگ جاری رکھنے کے عزم کو دیکھ کرمجھے بہت خوشی ہوتی ہے”۔

مختصر لنک:

کاپی