نیویارک ۔ مرکزاطلاعات فلسطین
امریکہ نے بدھ کے روز غزہ جنگ بندی کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا اور کونسل کے اراکین پر الزام لگایا کہ انہوں نے سمجھوتہ کرنے کی کوششوں کو مذموم طریقے سے مسترد کر دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت میں پیش کی گئی کسی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ امریکہ اس سے قبل بار بار فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرکے صہیونی ریاست کو قتل عام کا سرٹیفکیٹ دیتا رہا ہے۔
15 رکنی کونسل نے اجلاس میں اپنے 10 غیر مستقل ارکان کی پیش کردہ ایک قرارداد پر ووٹ دیا جس میں "فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی” اور الگ سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
صرف امریکہ نے قرارداد کو روکنے کے لیے کونسل کے مستقل رکن کے طور پر اپنا ویٹو استعمال کرتے ہوئے مخالفت میں ووٹ دیا۔
ووٹنگ سے قبل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بریفنگ دینے والے ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکہ صرف اس قرارداد کی حمایت کرے گا جس میں جنگ بندی کے حصے کے طور پر واضح طریقے سے یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔
اہلکار نے کہا، "جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے، ہم غیر مشروط جنگ بندی کی حمایت نہیں کر سکتے جس میں یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ نہ کیا جائے۔”
غزہ میں اسرائیل کی 13 ماہ کی جنگ میں تقریباً 44,000 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
امریکی اہلکار نے کہا کہ ووٹنگ سے پہلے برطانیہ نے نئی زبان پیش کی جس کی امریکہ ایک سمجھوتے کے طور پر حمایت کرتا لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
کونسل کے 10 منتخب اراکین (ای 10) میں سے بعض قرارداد پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے امریکی ویٹو لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، اہلکار نے یہ بات روس اور چین پر ان اراکین کی حوصلہ افزائی کا الزام لگاتے ہوئے کہی۔
عہدیدار نے کہا، "چین ‘مضبوط زبان’ کا مطالبہ کرتا رہا اور روس مختلف (منتخب) 10 اراکین کے ساتھ خفیہ طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا نظر آیا۔ یہ واقعی اس بیانیے کو کاٹ دیتا ہے کہ یہ ای 10 کی ایک غیر رسمی اور فوری عکاسی تھی اور بعض ای 10 ارکان کو افسوس ہے کہ مسودہ تیار کرنے کے ذمہ داروں نے اس عمل میں سازباز کی اجازت دی جسے ہم مذموم مقاصد سمجھتے ہیں۔”