غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
غزہ کے محصورین اور مقہورین کے پاس دنیا کا مادی اسلحہ اور تباہی پھیلانے والہ گولا بارود نہیں مگر نہتے فلسطینی ایمان اور استقامت کی دولت سے ضرور مالا مال ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ کے مظلوم عوام جس ہولناک جنگ سے گذر رہے ہیں اس کا تصور بھی محال ہے۔ انہوں نے پوری اسقامت، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کی رعونت اور استکبار کا سامنا کیا۔
غزہ کی گنجان آباد بستی کو کھنڈرات کے ڈھیر میں بدل دیا گیا اور فلسطینی قوم کو ان ہی کے وطن سے جس سے وہ بے پناہ محبت کرتے ہیں میں ایک بار پھر غریب الوطنی کے حالات سے دوچار کیا گیا۔
قابض صہیونی افواج کی لا متناہی اور نہ ختم ہونے والی جارحیت نے غزہ کی پٹی میں شمال سے جنوب تک ہر سو جرائم کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قتل و غارت گری کے متوازی اپنے مجرمانہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فاشسٹ دشمن شہری آبادی پر فاقہ کشی اور قحط کو کو ایک جنگی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطینیوں کے بے رحمانہ اور منصوبہ بند قتل عام پر عرب اور مسلمان ممالک کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے غزہ میں بہتی خون کی ندیوں کا تمشا دیکھ رہے ہیں۔
مایوسی کے باوجود صبر اوراستقامت
احمد ابو اسامہ وسطی غزہ کے شہر خان یونس کے علاقے مواصی کے ایک خیمے میں رہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جنگ اتنی دیر تک جاری رہے گی، لیکن یہ خدا کی تقدیر ہے اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس صبر اور ثابت قدمی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا ہمیں مایوس نہیں کرے گا اور یہ قربانیاں پھل ضرور لائیں گی۔ فلسطینی قوم اس وقت جس آزمائش اور مشکل سےگذ رہی ہے، اس تاریک شب کی سحر جلد طلوع ہوگی۔
ابو اسامہ نے عرب اور مسلمان ممالک کی طرف سے اختیار کردہ مایوسی اور بین الاقوامی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا۔ عرب ممالک اور مسلمان ملکوں نے ہمیں نیچا چھوڑ دیا۔ ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ اسرائیلی قتل عام کی مشین کے سامنے جوان، عورت، بوڑھے ، بچے سب برابر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حماس اور مزاحمت سے لڑ رہے ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارے بچے بچے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے وطن کو نہیں چھوڑیں گے۔
غزہ میں جاری منظم نسل کشی کی جنگ کے 400 دنوں کے دوران قابض فوج نے 3,798 بار اجتماعی قتل عام کیا، جس کے نتیجے میں 53,552 فلسطینی شہید اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔ 10,000 فلسطینی لاپتا ہیں۔ 43,552 شہداء کے جسد ہائے خاکی ہسپتالوں میں پہنچائے گئے۔ ان میں سے 17,385 بچے شہید جن میں 209 شیر خوار بچے شامل ہیں۔ شہید ہونے والے 825 فلسطینی بچوں کی عمر ایک سال سے کم تھی۔
شمالی غزہ کو خالی ہونے کی پالیسی کا سامنا
نسل کشی کی جنگ کے 400 ایام میں غزہ کی پٹی کے باشندوں کو کئی خطرناک موڑوں سے گذارا گیا۔ شمالی غزہ گورنری کی آبادی کو مکمل طور پر خالی کرنے کے اعلان کردہ ہدف کے تحت 36 دنوں سے بڑے پیمانے پر جارحیت کا مشاہدہ کیا ہے۔ شمالی غزہ کی پٹی کی بڑی تعداد کو شہید یا گرفتار کرلیا گیا۔
سرکاری میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق 36 دنوں کے دوران شمالی غزہ میں تقریباً 1900 شہری شہید، 4000 سے زائد زخمی اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ ہزاروں گھر تباہ ہوئے۔
ہمارے نامہ نگار نے عینی شاہدین سے اطلاع دی ہے کہ قابض فوج شمالی غزہ کے محلوں میں ایک چوک سے دوسرے چوک تک نسلی تطہیر کے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ مکانات کو دھماکے سے اڑایا جا رہا ہے، ان کے مکینوں کے سروں پر بمباری کی جا رہی ہے اور ان میں سے زخمی ایمبولینسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں۔
اس علاقے میں زندہ بچ جانے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ جبالیہ کیمپ میں ہم جس سکول میں تھے اس پر بمباری کے بعد انہوں نے ہمیں 25 دن سے زیادہ وقت تک بھوکا اور پیاسا رکھا۔ سکول پر بمباری کے نتیجے میں 10 افراد ہید ہو گئے۔ ہم بمباری کی زد میں آگئے۔ قابض فوج نے کیمپ کے دسیوں جوانوں کو اغواء کرلیا۔
اس نے مزید کہا کہ جب ہم سکول میں تھے ہم نے دھماکوں، گھروں کو اڑانے اور انہیں جلانے کی آوازیں سنیں، یہ واضح ہے کہ وہ بغیر کسی وجہ کے ان کے سامنے سب کچھ تباہ کر رہے ہیں۔
اگرچہ قابض فوج اعلان کرتی پھرتی ہے کہ وہ جرنیلوں کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر رہی ہے، جس میں شمالی غزہ کے مکینوں کو بے گھر کرنے، وہاں کی مزاحمت کا محاصرہ کرنے اور انہیں ہتھیار ڈالنے یا قتل کرنے کی کوشش ہے۔
اب تک شمال کے دسیوں ہزار باشندے ثابت قدم ہیں اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہو رہے ہیں، گورنری کو بے گھر کرنے اور خالی کرنے کے منصوبوں کو مسترد کر رہے ہیں۔
سب سے بڑا قتل عام
نسل کشی کے 400 روز بعد یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس آبزرویٹری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامی عبدہ نے بتایا کہ ایسا کوئی جرم یا خلاف ورزی باقی نہیں رہی جس سے یہ تصور کیا جا سکے کہ "اسرائیل” نے خوفناک اور تباہ کن توسیع کے ساتھ مشق نہیں کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارے پاس 20 لاکھ بے گھر لوگ ہیں جو زبردستی بے گھر ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس قابض صہیونی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے قلیل مدت میں سب سے بڑے قتل عام کا ریکارڈ ہے جس میں 50 ہزار سے زیادہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔ان میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ ہمارے پاس ماورائے عدالت قتل اور من مانی قتل کے بھیانک جرائم کے ثبوت ہیں، جن میں سفید جھنڈے اٹھانے والوں کو قتل کرنا، قیدیوں کو قتل کرنا، ان پر تشدد کرنا، ان کی عصمت دری کرنا اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شامل ہے۔
بھوک کا ہتھیار
قتل عام اور بے گھر کرنے کے جرم کے علاوہ قابض صہیونی فوج غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیارکے طور پر استعمال کررہی ہے۔ یہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہتھیاروں میں سے ایک لگتا ہے جب کہ دنیا اس گھناؤنے جرم کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
تقریباً 40 دن بغیر کسی امداد کے شمالی غزہ کے باشندوں کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ جنوب کے باشندوں کو قحط کے ایک اور چکر کا سامنا ہے، کیونکہ بازاروں سے سامان ختم ہو چکا ہے۔ جو کچھ بچا ہے اس کی قیمتیں شہریوں کی خریداری کی استطاعت سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
غزہ کے فلسطینی گذشتہ چارسو روز سے ظلم کی ہرشکل کا سامنا کرچکے ہیں اور مسلسل کررہے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔ پورے پورے خاندان ختم کردیے گئے اور ان کی نسل مٹا دی گئی۔ تشدد اور انسانیت سوزی کا ہرحربہ برداشت کررہے ہیں مگر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے سینہ سپر ہیں۔