بین الاقوامیفوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی کے وزیر اعظمبنجمن نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ایک فوری معاملہ بن گیا ہے۔انہوںنے استفسار کیا کہ کیا نیتن یاھو کی گرفتاری وارنٹ کے اجرا کے لیے غزہ کے تماملوگوں کی موت کا انتظار رکنا پڑے گا۔
کریم خان نے منگلکو جرمن میگزین ڈیر اشپیگل کی طرف سے شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیلیحکام کے خلاف کارروائی کو ملتوی نہیں کیا جانا چاہیے۔ وہ بین الاقوامی قانون سےبالاتر نہیں ہیں۔
رواں سال 20 مئیکو خان نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے کہا تھا کہ وہ سات اکتوبر 2023ء سے جنگی جرائم، انسانیت کےخلاف جرائم اور نسل کشی کے ارتکاب کے الزام میں نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوآو گیلنٹکے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے۔
جرمن میگزین کےنمائندے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اسرائیلیحکام کے خلاف تحقیقات کو ملتوی کیا جائے؟”۔ خان نے ناگواری سے کہا کہ "کیامجھے سب کے مرنے تک انتظار کرنا چاہیے؟” اگر آپ کے والد، والدہ، یا دادا کو یرغمالبنایا گیا تھا تو کیا آپ واقعی میں مجھے انتظار کرنا چاہیں گے؟ اگر آپ کا بچہ یاآپ کی بہن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تھا، تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں انتظار کروں؟۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "جو قانون یوکرین اور سوڈان پر لاگو ہوتا ہے وہ فلسطینیوں پر کیوں لاگونہیں ہوتا؟” کیا کسی مخصوص جغرافیائی علاقے کو بین الاقوامی قانون سے خارجکرنا درست ہے؟۔
خان نے کہا کہ کینیڈاکے علاوہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے تمام رکن ممالک فلسطین کو بہ طور ریاستتسلیم کرتے ہیں۔
خان نے اسرائیلیحکام کے اپنے خلاف یہود دشمنی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "سیاسیرہ نماؤں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مفاد پرست گروہوں کے درمیان بہت زیادہ بدسلوکی،دھمکیاں اور کھیل چل رہا ہے، لیکن میں خود جانتا ہوں”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "لوگوں کو محض یہود مخالف کہہ کرانتقام کا نشانہ بنانے کا رجحان بڑھ رہاہے۔ سچ کہوں تو میرے لیے جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ ہے کہ متاثرین قانون سے کیاتوقع رکھتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قانون دنیا میں ہر جگہ یکساں طور پر لاگو ہو۔
خان نے نشاندہی کیکہ عدالت اور اس کے ملازمین کو بہت سی دھمکیوں اور ڈرانے دھمکانے کی کوششوں کاسامنا تھا۔