فلسطینی اسیرانکے امور پر نظر رکھنے والے ادارے اسیران کمیشن اور کلب برائے اسیران نے ایک مشترکہبیان میں بتایا ہےکہ اس اکتوبر کے آغاز ابتک قابض اسرائیلی جیلوں میں انتظامی حراستکے تحت قید کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد 3398 ہو گئی ہے، جن میں 30 خواتین اور 90بچے شامل ہیں۔
قیدیوں کے اداروںکی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کی نقل مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہوئی ہے جس میںکہا گیا ہے کہ انتظامی حراست کے جرائم میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، کیونکہ قابض ریاستکی جیلوں میں انتظامی نظربندوں کی تعداد قیدیوں کی کل تعداد کا 33 فیصد ہے۔
قابض حکام نے گذشتہسال سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی پر نسل کشیکی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 9500 سے زائد انتظامی حراستی احکامات جاری کیےہیں، جن میں نئے احکامات اور پہلے سے قید فلسطینیوں کی سزا میں تجدید کے احکاماتشامل ہیں۔
انہوں نے وضاحت کیکہ تقریباً 90 بچے انتظامی طور پرحراست میں ہیں جن میں ایک 14 سالہ بچہ عمارعبدالکریم بھی شامل ہے۔
کمیشن اورکلب نےمزید کہا کہ انتظامی حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد میں بڑی تبدیلیاں بنیادیطور پر القدس سمیت مغربی کنارے میں گرفتاری کی مہم کی سطح سے منسلک ہیں، جس سےتمام زمروں سمیت 11500 سے زائد گرفتاریاں متاثر ہوئیں۔
اسیران کمیشن اورکلب نے وضاحت کی کہ "انتظامی نظربندوں کا معیار ایک بے مثال طریقے سے، من مانیاور دیوانہ وار گرفتاریوں کی نشاندہی کرتا ہے جس کا مقصد سماجی، سیاسی اور علمی شعبوںسمیت تمام سطحوں پر کسی بھی موثر کردار کو کمزور کرنا ہے”۔
انہوں نے کہا کہقابض نے طلباء، صحافیوں، سماجی کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر گروپوںکو انتظامی طور پر نظربند کرنے کے فیصلے جاری کیے۔ آپریشنز میں سابق قیدیوں کونشانہ بنایا گیا، جو انتظامی حراست میں لیے گئے افراد میں سب سے زیادہ ہے۔