ایک لیک شدہقانونی میمورنڈم میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یورپی یونین نے بین الاقوامی عدالتانصاف کےاس فیصلے کو نظرانداز کیا جس میں تمام ممالک سے فلسطینی علاقوں پر قابض اسرائیلیریاست کی فلسطینی علاقوں میں قائم غیرقانونی یہودی بستیوں کی حمایت ختم کرنے کامطالبہ کیا گیا تھا۔
انٹرسیپٹ ویبسائٹ کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین فارن افیئرز سروس کے لیگلڈائریکٹر فرینک ہوفمیسٹر کی جانب سے لکھے گئے میمورنڈم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بینالاقوامی عدالت کی رائے، جسے ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے اعلیٰ ترین بینالاقوامی قانونی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے ممالک کواسرائیلی بستیوں سےدرآمد شدہ سامان پر پابندی عائد کرنے کا پابند نہیں کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ساتصفحات پر مشتمل تجزیے میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ یورپی یونین کے قوانین میں صرف بستیوںسے آنے والی مصنوعات کے لیبل لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
22 جولائی کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کوبھیجے گئے لیک میمو نے یونین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ قانونیاور انسانی حقوق کے ماہرین کا خیال ہے کہ یورپی یونین بین الاقوامی قوانین کے تحتاپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔
فلسطینی علاقوں میںانسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے یونین کےموقف کو "قانونی طور پر ناقص، سیاسی طور پر نقصان دہ اور اخلاقی طور پرمتضاد” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یورپی یونین کے اقدامات بین الاقوامیقانون پر اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "سیاسی مفادات کی خاطر اصولوں کی خلاف ورزی یورپی یونین کی خارجہ پالیسیکی ساکھ کو کمزور کرتی ہے اور فلسطین سے باہر کے لوگوں کے اعتماد کو دھوکہ دیتی ہے”۔
رپورٹ میں اشارہکیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم ایہود بارک کے مشیراور ریاستہائے متحدہ امریکہ اورمشرق وسطی کے پروجیکٹ کے سربراہ ڈینیئل لیوی نے ہوفمیسٹر کی تشریح کو "کمزور‘‘قرارد یا۔