فلسطینی پناہ گزینوںکے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے کمشنر جنرلفلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں 650000 سے زائد بچے اسکولوں سےمحروم ہیں اورملبے کے درمیان رہ رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی تعلیم کے نقصان کا اتنا بوجھ برداشت نہیںکر سکتی۔ دو سال پوری نسل تعلیم سے محروم ہے۔
لازارینی نے بتایاکہ اردن کے دارالحکومت عمان میں سعودی سفارت خانے سے ایجنسی کے پروگراموں اور آپریشنزکے لیے 20 لاکھ ڈالر کی رقم موصول ہوئی ہے۔
’انروا‘ کمشنر نےاس بات پر زور دیا کہ غزہ کی پٹی "مسلسل دو سال میں ایک پوری نسل کو تعلیم سےمحروم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ اسی وجہ سے ایجنسی نےبچوں کی زندگیاں بچانےکے کاموں کے ساتھ ساتھ کچھ تعلیمی پروگرام دوبارہ شروع کیے ہیں”۔
لازارینی نےنشاندہی کی کہ "گہرے مصائب اور نقصانات کے ایک سال کے بعد غزہ ایک مکمل طورپر ناقابل شناخت جگہ اور دسیوں ہزار فلسطینیوں کے لیے قبرستان بن گیا ہے، جن میںسے بہت سے بچے ہیں”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح نظر اندازی اور سول آرڈر کا تقریباًمکمل خاتمہ غزہ میں انسانی ہمدردی کے ردعمل کو مفلوج کر رہا ہے، کیونکہ "ملبےکے سمندر نے سابقہ سڑکوں کی جگہ لے لی ہے، جہاں اب تقریباً پوری آبادی بے گھر ہوچکی ہے”۔
لازارینی نے ’انروا‘کے کام کو روکنے سے متعلق اسرائیلی مسودہ قوانین کو اپنانے کی صورت میں سنگیننتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں حالیہ اسرائیلی جارحیت خاصطور پر تشویشناک ہے، کیونکہ وہاں جانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ جنوب میںحالاتِ زندگی ناقابلِ برداشت ہو گئے ہیں کیونکہ غزہ ایک بار پھر انسانوں کے مسلطکردہ قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔
قابض فوج نےمسلسل دسویں روز بھی شمالی غزہ میں اپنی جارحیت جاری رکھی ہے۔ پرتشدد فضائی اورتوپخانے کی بمباری، محاصرہ اور فاقہ کشی، خاص طور پر جبالیہ کیمپ اور غزہ گورنریکو مکمل طور پر الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
مکمل امریکی حمایت کے ساتھ اسرائیلی قابض فوج سات اکتوبر2023ء سے غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی جنگ لڑ رہی ہے، جس کے نتیجے میں 140000 سے زیادہفلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں اور 10000 سے زیادہلاپتہ ہیں۔