اسلامی تحریک مزاحمت’حماس‘ کےسینیر رہ نما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت غزہ کی محصور اورتباہ شدہ پٹی کے لیے گیارہ ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت کو روکنے کےبعد "مشترکہ فلسطینی حکومت” چاہتی ہے۔
انہوں نے استنبولمیں ’اے ایف یپ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "جنگ کے بعد غزہ کا مستقبلفلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ ہم بیجنگ اسی لیے گئے تھے تاکہ فلسطینیوں کے طور پر بات چیتکی جا سکے اور غزہ میں فلسطینی امور کے انتظام کے لیے ایک قومی متفقہ حکومت بنانےپر اتفاق کیا جا سکے۔
غزہ میں جنگ کےبعد کےمنصوبے کے بارے میں امریکہ اور "اسرائیل” کے مختلف خیالات کےباوجود دونوں فریق جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے کسی بھی فارمولے سے حماس تحریککو خارج کرنے پر متفق ہیں۔
قیدیوں کے تبادلےکے معاہدے اور جنگ بندی کے مذاکرات کے بارے میں حمدان نے امریکہ پر الزام لگایا کہوہ غزہ کی پٹی میں خونریز جنگ کو روکنے کے لیے "اسرائیل” پر "دباؤ”نہیں ڈال رہا۔
حمدان نے کہا کہ”امریکی انتظامیہ اسرائیلی فریق پر مناسب یا درکار دباؤ نہیں ڈالتی، بلکہ وہاسرائیل کی جانب سے کسی بھی وعدے کو چھوڑنے کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے”۔
تقریباً 10 مہینوںسے تل ابیب اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے کئی دور ناکام ہو گئے ہیں۔اسناکامی کی بنیادی وجہ قابض فاشسٹ صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھوکا جنگجاری رکھنے پر اصرار ہے۔ جس کے نتیجے میں قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی جنگ جاری رکھنے پراصرار ہے۔ وہ غزہ کے جنوب اور مرکز میں فلاڈیلفیا اور نیٹزاریم کے محوروں پر قابضفوج کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ اور دوسرے علاقوںمیں نقل مکانی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
اسرائیلی رکاوٹوں کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کے حصولکے لیے مصر اور امریکہ کے ساتھ قطر کی ثالثی کی کوششیں جاری ہیں ، تاہم حماس نےواشنگٹن پر قابض اسرائیلی ریاست کے خلاف بھرپور دباؤ نہ ڈالنے کا الزام عاید کیاہے۔