فلسطین کی واٹر اتھارٹیکے سربراہ مازن غنیم نے کہا ہے کہ جنگ جاری رہنے کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں پانیکا فی کس حصہ 5 لیٹر یومیہ سے زیادہ نہیں ہے جو کہ انسانی بقا کی کم از کم حد سے بہتکم ہے کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ کم سے کم حد 15 لیٹر یومیہ ہے۔
مازن غنیم نے یہبات اسٹاک ہوم واٹر ویک میں ایک تقریب سے خطاب میں کہی۔ اس سیشن کا عنوان "فلسطینمیں پانی کی حفاظت اور امن” تھا جس کا اہتمام عالمی بینک نے واٹر اتھارٹی اوریونیسیف کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
غزہ میں صاف پانیہمیشہ سے ایک محدود وسیلہ رہا ہے، کیونکہ یہ علاقہ پانی کی فراہمی کے لیے کنوؤں اورواٹرفلٹریشن پلانٹس کے نیٹ ورک پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
بار بار جبری نقلمکانی کی پالیسی، پانی کی ایک بڑی قلت اور بے گھر لوگوں کے خیموں اور سڑکوں پر سیوریجکے نظام کے پھیلاؤ کے نتیجے میں غزہ میں پولیو وائرس کے غائب ہونے کے 25 سال بعددوبارہ اس بیماری نے سر اٹھا لیا ہے۔
غنیم نے عالمی برادریسے مطالبہ کیا کہ وہ قابض حکام پر فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے، اور انسانی امدادپہنچانے اور پانی کی سہولیات کو چلانے کے لیے ایندھن کی فراہمی اور غزہ میں ہنگامیردعمل کے منصوبے کے نفاذ کے لیے موثر کردار ادا کرے۔
انہوں نے قابض حکامپر تمام نسل پرست اسرائیلی آبی پالیسیوں کو روکنے، بین الاقوامی قوانین اور معاہدوںکی تعمیل کرنے اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا ادراک کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی ضرورتپر بھی زور دیا۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ قابض حکومت یہودی نے بستیوں کے لیے گرمیوں میں مغربی کنارے میں شہریوں کو فراہمکیے جانے والے پانی کی مقدار کو کم کردیا تھا۔ اس وقت یہودی آباد کاروں کو فلسطینیشہریوں کی نسبت چھ گنا زیادہ پانی ملتا ہے۔
بی بی سی کی فیکٹفائنڈنگ ٹیم کے سیٹلائٹ تجزیے کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی پر قابض فوج کی طرف سے مسلط کی گئی جنگ کے بعد سے غزہ میں پانی اور صفائی کی سیکڑوں سہولیاتکو نقصان پہنچا یا تباہ کیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوںکے مطابق گندے پانی کو صاف کرنے والے چھ میں سے چار پلانٹس، جو گندے پانی کے جمع ہونےاور بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کو نقصان پہنچا یاتباہ کر دیا گیا۔ دو دیگر ڈی سیلینیشن پلانٹس ایندھن کی کمی یا نقصان کی وجہ سے بندہو گئے تھے۔