بین الاقوامی اورامدادی تنظیموں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ غزہ کی پٹی میں 70 فیصد رہائشی عمارتیں،کمپنیاں اور ہسپتال تباہ ہوچکی ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ ملبہ ہٹانے اورتعمیر نو کی لاگت 80 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جس میں کئی سال لگیں گے۔
اقوام متحدہ کاکہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کی پٹی میں 42 ملین ٹن سے زیادہ ملبہچھوڑا ہے۔ وہاں پر اتنا ملبہ جمع ہوچکا ہے کہ اگر اسے نیویارک سے سینگا پور تکٹرکوں کی ایک لائن میں کھڑا کرکے ان میں ڈالا جائے تو پھر بھی ملبہ بچ جائے گا۔
ایجنسی کا اندازہہے کہ ملبے کو ہٹانے کے عمل میں برسوں لگیں گے اور اس پر 700 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔یہ کام نہ پھٹنے والے بموں، خطرناک آلودگیوں اور ملبے کے نیچے انسانی باقیات کیموجودگی کی وجہ سے مزید مشکل ہو گیا ہے۔
بلومبرگ نے غزہ کیصورت حال کو زیادہ خطرناک قرار دیا ہے کیونکہ یہ شہر جو کہ فلسطین کا سب سے بڑا گنجانآباد مرکز ہے۔ اس کے آبادی والے علاقوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اس میں ملبےکی مقدار اس پٹی کے ملبے کے نصف سے زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ نےاس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ اور اس کے مکینوں کی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے پورےبنیادی ڈھانچے کی ایک جامع تنظیم نو کی ضرورت ہوگی۔اس شعبے کی نئی شکل کا تعینکرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔
بلومبرگ کا مزیدکہنا ہے کہ ایسا کچھ ہونے سے پہلے ترجیح جنگ کے خاتمے کے بعد تمام ملبے کو اکٹھاکرنا اور ہٹانا ہو گا، لیکن آلودہ ملبے کو ٹھکانے لگانے کے لیے جگہیں تلاش کرنے میںدشواری کی وجہ سے یہ عمل مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
کیلیفورنیا میں رینڈکارپوریشن کے سینئر ماہر اقتصادیات ڈینیل ایگل کا کہنا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کیلاگت 80 بلین ڈالر سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے، جب بہت سے دیگر اخراجات، جیسے کہموت، زخموں اور صدمے سے تباہ شدہ لیبر مارکیٹ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایگل نے کہا کہ ’’آپعمارت کو دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں لیکنآپ دس لاکھ بچوں کی زندگیوں کو کیسے دوبارہ تعمیر کریں گے؟”۔
دوسری جانب امریکیایجنسی کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جنگ نے پٹی کی نصف زرعی اراضی کو تباہ کردیا، خاص طور پر خان یونس، جو کہ غزہ میں زیادہ تر لیموںم نارنگی اور انگور پیداکرتا ہے کھنڈر میں بدل چکا ہے۔
بلومبرگ نے رپورٹ کیا کہ آکسفیم کے ساتھ تعاون کرنےوالی مقامی خیراتی تنظیم روٹس فاؤنڈیشن فار ہیلتھ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کے مطابق زرعیشعبے کو اس تباہی سے نکلنے میں برسوں لگیں گے۔