جمعه 15/نوامبر/2024

"ہیکل کی تباہی کی یاد” اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت چہ معنی دارد؟

اتوار 18-اگست-2024

مسجد اقصیٰ پر تاریخ کی بدترین صہیونی دراندازی روز مرہ کا معمول بنتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک دن میں تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑی دراندازیوں کا ارتکاب دیکھنے میں آیا، جب مسجد میں گھسنے والوں کی تعداد تقریباً 3000 تک پہنچ گئی۔

قابض پولیس نے دراندازوں کے گروپ کی تعداد 200 تک بڑھا دی اور بیک وقت تین گروہوں کے داخلے کی اجازت دے کر صہیونی یہودیوں کی موجودگی کو بڑھاوا دیا۔ یہ تعداد مسجد اقصیٰ کے محافظوں اور اسلامی اوقاف کے ملازمین کی تعداد سے زیادہ تھی۔ جبکہ یہ مسلمان نمازیوں پر عائد پابندیوں، مسجد کے محاصرے، اور مرابطین پر ظلم و ستم کے واقعات کے دوران سامنے آیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ اسرائيلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد جان بوجھ کر مسجد اقصیٰ پر چھٹی بار دھاوا بولا ہے. یہ طوفان اقصیٰ شروع ہونے کے بعد تیسری بار ہے جس میں مسجد اقصیٰ میں یہودی کی رسومات کے نفاذ کی ذاتی طور پر نگرانی اور اس کا عوامی سطح پر اعادہ کیا گیا۔

جیسا کہ دراندازوں نے مسجد اقصیٰ کی سرزمین پر "عظیم سجدہ” کی رسم ادا کی، اسرائیل زندہ ہے ” کے نعرے لگائے۔” صہیونی قومی ترانہ، بائبل کی دعاؤں کا ورد کرتے رہے، اور صہیونی پرچم لہرایا۔ اس مداخلت نے ایک خطرناک پیش رفت کا مشاہدہ کیا، قبہ الصخرہ کے مقابل مسجد کا مغربی صحن جسے 2019 کے بعد سے الگ کیا گیا ہے کو "غیر اعلانیہ یہودی عبادت گاہ” بنایا گیا۔

مسجد اقصی باعث تنازعہ

فاؤنڈیشن نے اس بات پر زور دیا کہ مسجد اقصیٰ کے خلاف نئی جارحیت اور طوفان اقصیٰ جنگ کے گیارہویں مہینے میں اس میں اضافہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مسجد اقصیٰ تنازعہ کے پھیلنے کا مرکز ہے۔ اسی طرح 2017 میں تنازعہ کو حل کرنے اور مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی کوششوں کے آغاز کے بعد سے، صہیونی ادارہ مسجد اقصیٰ کو تنازعے کی جڑ کے طور پر دیکھ رہا ہے، اور اسے مسجد سے ہیکل میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جنگ  کے گیارہ مہینوں کے دوران مذہبی جنونیت اور صہیونیوں کی طرف سے مسجد اقصی کی تقدیر کو حل کرنے اور اس کے تشخص کو مٹانے کی کوشش میں بالعموم صہیونیت کی ترویج میں اضافہ دیکھا گیا۔

 عمومی طور پر یہ صیہونیت کی حکمت عملی سے مطابقت رکھتا ہے کہ اسے فنا کی ایک جامع جنگ میں بدلنے کی کوشش کی جائے۔ مسجد اقصیٰ پر جارحیت صہیونی عناصر کے لیے فنا اور بقا کی علامت بن گئی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت اور فلیگ مارچ میں "اسرائیل زندہ ہے” کے نعرے لگانا اظہار ہے کہ یروشلم ان کے شعور میں بننا شروع ہو چکا ہے، جب تک وہ اس پر حملہ کرتے ہیں، وہ زندہ ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی میں مزاحمت 2021 میں معرکہ اقصی میں، 2023 میں معرکہ اعتکاف میں، اور پھر 2023 میں طوفان الاقصیٰ میں سامنے آئی جسے ہماری پوری قوم کی قابل فخر مزاحمتی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔

آج صہیونی افواج کے تکبر اور بمباری کے درد کے باوجود، معرکہ اقصیٰ کی تجدید اس بات کی تائید ہے کہ ہے کہ معرکہ اقصی کی جیت ہوئی، اور یہ کہ اس کے بارے میں قابض اسرائیل کا یہ گمان ناممکن ہے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل میں تبدیل ہوگی، اور یہ کہ القدس العربی عبرانی یروشلم بنے گا۔

عالم اسلام کو متحد ہونا چاہیے

 انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں مزاحمت کی طرف سے پیش کردہ یہ تجدید ماڈل یروشلم، مغربی کنارے اور 1948 میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقے کی تمام قوتوں پر مسلط ہے اور عرب اور اسلامی قوم کو اس جنگ میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے محاذ کو وسعت دیں، تاکہ اقصیٰ قوتوں کو متحرک کرنے کا صیہونی بھرم ختم ہو جائے۔

اس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مسجد اقصیٰ اور یروشلم کا دفاع کرنا اور ان کی آزادی کی جنگ لڑنا مطلق انصاف اور حق پر مبنی ہے جو ہماری قوم کے مختلف فرقوں، رجحانات اور قوتوں کو متحد کرتا ہے۔ اور یہی وہ عنوان ہے جو اسے اس دنیا میں حق اور انصاف کے تمام حامیوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔ آج اس جنگ کو اتحاد کے پُل بنانے اور گذشتہ دہائیوں میں ہماری قوم کے جسم میں پیدا ہونے والی دراڑوں کو بھرنے کے عنوان کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

القدس فاؤنڈیشن نے متنبہ کیا کہ مسجد اقصیٰ جمود کے انتظام کے تحت خالص اسلامی مقدس مقام رہنے کے بجائے مسلسل تبدیلیوں کے لیے جائز اور کمزور ہو گیا ہے، جیسا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق 4 جون 1967 سے پہلے تھا۔  اسلامی اوقاف اب اس میں صرف "اسلامی موجودگی” کا انتظام کرتے ہیں، جب کہ اب یہ قابض پولیس کے اختیار میں ہے اور اس کے انتہا پسند وزیر، بین گویر، اور جھوٹے قابض وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو، اس کی تکمیل کرتے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی حیثیت پر تجاوز اور اس میں یکے بعد دیگرے تبدیلیوں کے پیش نظر، اردن کو اس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ملک کے طور پر ایک سنجیدہ سرکاری موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون میں، اور القدس میں اسے اسلامی اوقاف کی نگرانی کا اختیار حاصل ہے۔

 امن اور معمول کے معاہدوں کا تسلسل، گیس کی درآمد، سبزیوں کی برآمد، اور زمینی پل، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات کے لیے اردن کی تاریخی ذمہ داری سے مکمل طور پر متصادم ہے۔ یہ تمام عرب اور اسلامی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے، جو تمام معاہدوں اور معمولات کو ختم کرنے کے لیے فوری مؤقف کا مطالبہ کرتی ہے۔

عظیم سجدہ اور یہودی عبادات کے مقام کی توسیع

بیت المقدس کے امور میں مہارت رکھنے والے محقق، زیاد ابیحص نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ اجتماعی "عظیم سجدہ” مغربی جانب سے ڈوم آف دی راک کے سامنے ادا کیا گيا ہے، اور خبردار کیا کہ یہ یہودی رسومات کو مخصوص مقام سے آگے پھیلانے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آور مسجد اقصیٰ کے محافظوں، اور ملازمین کی تعداد سے کہیں زیادہ تھے ، یہ پالیسی قابض افواج نے مئی 2023 سے نافذ کی ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ صیہونی وزیر برائے قومی سلامتی، اتمار بن گویر، ایک ویڈیو کلپ میں مسجد اقصیٰ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گاتے ہوئے نظر آئے: "اسرائیل کے لوگ زندہ ہیں”۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ حملوں کے دوران اس نعرے پر بار بار توجہ مرکوز کرنا اس معنی کو واضح کرتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد مذہبی صہیونیت کو جارحانہ فوتوں کے حوصلے بڑھانے اور صہیونی منصوبے پر اعتماد بحال کرنے کا موقع مل گیا ہے، کہ جب تک ہم الاقصیٰ پر حملہ کرتے ہیں ہم زندہ ہیں!

مسجد اقصیٰ ہیکل نہیں

انہوں نے کہا: آج جب صہیونی مسجد اقصیٰ پر پے در پے حملے کر رہے ہیں فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کے طور پر ہمارے سامنے پہلا چیلنج  یہ ہے کہ وہ فلسطین کے اندر اور باہر سرحد پار سے زیادہ طاقت جمع کرے۔

انہوں نے کہا کہ” انفرادی طور پر کی جانے والی کارروائیوں سے لے کر یکے بعد دیگرے ہونے والی بے ساختہ عوامی تحریک تک وہ تمام اجزاء جنہوں نے مسجد اقصیٰ میں مذہبی تبدیلی کے چیلنج کا جواب دیا وہ اب تک مقبوضہ فلسطین کے اندر سے تھے۔

انہوں نے کہا کہ آج جب مسجد اقصیٰ فلسطین کی سرزمین پر فیصلہ کن معرکہ کے عنوان سے واپس آرہی ہے، سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ طاقت کے عناصر کواس معاملے پر کیسے جمع کیا جائے تاکہ قابض حکام کے صہیونی عزائم کو ختم کریں اور اس بات کی تصدیق کریں کہ بیت المقدس یروشلم نہیں ہوگا۔ اس مسئلے کا حل ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ اس  سر زمین کو اس کے لوگوں، اس کے مالکان اور اس کی مستند شناخت کو واپس کیا جائے۔

 فرقہ وارانہ خلیج کو ختم کرنے، تفریق پر قابو پانے ااور قومی افواج کے اتحاد کو بحال کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس پورے فلسطین میں انقلاب کی علامت بن سکتے ہیں۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ "ہیکل کی تباہی کی برسی” کے موقع پر مسجد اقصیٰ کے خلاف جارحیت کا کیا مطلب ہے؟

 

مختصر لنک:

کاپی