جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی قتل عام: الدرج کالونی میں سکول پر بمباری، 100 سے زائد شہادتیں

ہفتہ 10-اگست-2024

مقبوضہ فلسطین سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سنیچر کو علی الصباح غزہ کے ایک سکول پر اسرائیلی حملے میں 100 سے زیادہ فلسطینی شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے، جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حماس کے ایک کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا ہے۔

حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے میڈیا دفتر نے ایک بیان میں کہا: ’اسرائیل نے سکول میں مقیم پناہ گزینوں کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے، جس وجہ سے شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔‘

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بصل نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وسطی غزہ کی الدرج کالونی میں التابعين سکول پر اسرائیلی لڑاکا طیاروں کے تین میزائل حملوں کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے 90 فیصد افراد مدرسہ التابعین میں پناہ لینے والے فلسطینی تھے۔

محمود بصل نے اس واقعے کو ایک ہولناک قتل عام قرار دیا، جس میں کچھ متعدد لاشوں میں آگ لگ گئی، ان کا کہنا تھا کہ عملہ جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کے لیے آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شہری دفاع کے اندازوں کے مطابق ’’التابعین سکول‘‘ میں ہونے والا قتل عام المعمدانی ہسپتال اور مواصی خانیونس کے علاقوں میں اسرائیلی ہاتھوں سے رونما ہونے والے قتل عام میں جانوں کی ضیاع کے لحاظ تیسرا بڑا قتل عام ہے۔

میڈیا سینٹر کے مطابق بمباری میں ہونے والی بڑی پیمانے پر ہلاکتوں کی وجہ سے طبی عملے اور امدادی کارکنوں کو تمام شہداء کی لاشیں نکالنے کے کام میں  مشکل پیش آ رہی ہے۔ زخمیوں کی بڑی تعداد کے اعضا بھی کٹے پھٹے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بھی ہسپتال تک لے جانے میں مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔

حکومتی میڈیا سیل کے ڈائریکٹر جنرل اسماعیل الثوابتہ نے بتایا کہ اسرائیل نے سکول میں قائم پناہ گزین کیمپ کو تین میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ان میں ہر بم میں دو ہزار پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد تھا۔ اسماعیل الثوابتہ کے بقول اسرائیل کو التابعین سکول میں پناہ گزینوں کی موجودگی کی بابت علم تھا اس لئے صہیونی فوج کے اس مقام کو حماس کے کمان اینڈ کنڑول سینٹر کے طور پر استعمال کیے جانے سے متعلق صہیونی دعوے جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کا مجموعہ ہیں، جن کا اسرائیل اپنے جرم پر پردہ پوشی کے لئے روایتی طور پر سہارا لیتا ہے۔

مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ بمباری میں شہید ہونے والے زیادہ تر افراد بزرگ اور بچے ہیں۔ جائے حادثہ پر کوریج کرنے والے صحافیوں نے اسرائیلی بمباری کے بعد کے مناظر دیکھ کر شدید صدمے اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق نماز ادائی کے دوران شہید ہونے والوں کی جلی ہوئی لاشیں اور ان کے کٹے پھٹے جسم کے ٹکڑے جائے نمازوں پر بکھرے پڑے ہیں۔ بہت سے لاشوں کے ٹکڑے بمباری سے ہونے والے دھماکے کی شدت کے باعث سکول کے میدان میں جا گرے۔

اس موقع پر مختلف ٹی وی چینلز کے کیمروں کے ذریعے بنائی گئی فوٹیج میں شہدا کی لاشیں اور ٹکڑے زمین پر پڑے دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد شہیدوں کو ملبے کے نیچے سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امدادی کارکن ناکافی وسائل کے باعث ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 غزہ کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 39 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے پناہ گزینوں پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل امریکہ، قطر اور مصر کے مطالبے پر 15 اگست کو غزہ میں فائر بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

مختصر لنک:

کاپی