یورپی یونین کےخارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی کے اعلیٰ مندوب جوزپ بوریل نے اسرائیلی قابضحکومت کی جانب سے ناروے کے سفارت خانے میں سفارت کاروں کو فلسطینی ریاست میں ناروےکی نمائندگی کی اجازت ختم کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
بوریل نے کہا کہ”آج مجھے ناروے کے وزیر خارجہ ایسپین بارتھ ایڈے نے فون پر بتایا کہ بنجمن نیتنیاہو کی حکومت کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ معاملات کرنے والے نارویجن سفارتکاروں کی سفارتی حیثیت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزیدکہاک "میں اس غیر منصفانہ فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہوں، جو اوسلو معاہدے کیروح کے خلاف ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ معمول کے تعلقات اور تعاون کو غیرمتناسب طور پر متاثر کرتا ہے”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "میری ہدایات کی بنیاد پر تل ابیب میں یورپی یونین کے وفد کے سربراہنے اسرائیلی حکومت کو ہمارے موقف سے آگاہ کیا۔ یہ اسرائیل اور ناروے کے درمیان دوطرفہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے کام کرنے والوں کےلیے تشویش کا مسئلہ ہے۔
بوریل نے وضاحت کی”کہ فلسطینی عوام کے لیے بین الاقوامی امداد کو مربوط کرنے کے لیے وقف رابطہکمیٹی کے سربراہ کے طور پر (اے ایچ ایل سی ڈونر میٹنگ) انہوں نے مشرق وسطیٰ میںامن کے عمل اور فلسطینی عوام کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے”۔
انہوں نے زور دیاکہ "یورپی یونین ناروے کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے، جو خطے میں امن،سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینے کی ہماری کوششوں میں ایک انمول شراکت دار ہے”۔
قابض ریاست نے کلجمعرات کو اعلان کیا تھا کہ اس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرائی گئیایک درخواست کی بنیاد پر ناروے کے خلاف تعزیری اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔ استجویز میں کہا گیا ہے کہ اوسلو معاہدہ فلسطینیوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم پرغور کرنے کے اختیار کو متاثر نہیں کرتا۔یہ کہ عدالت اسے جاری کر سکتی ہے۔
ناروے کے اس بیانکے بعد نیتن یاھو اور اس کے وزیر دفاع یو آوگیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے میںمدد مل سکتی ہے۔
قابض ریاست کاناروے کے خلاف تعزیری اقدامات کرنے کا فیصلہ اس رائے کے بعد سامنے آیا ہے جو اسنے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جمع کرائی ایک تجویز میں پیش کیا۔