سه شنبه 03/دسامبر/2024

غزہ کے جہنم زار میں زچگی کے ناقابل یقین تلخ تجربات

جمعرات 8-اگست-2024

رشا محمود اس تلخ دن کو کبھی نہیں بھولیں گی، جب گرتے بموں کی گھن گرج میں انہوں نے زچگی کی تکلیف محسوس کی۔”صورتحال مشکل اور ناقابل بیان تھی مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل رک جائے گا۔”

اس تجربے کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، "20 جون کو غروب آفتاب کے وقت، میں نے اپنے پیٹ کے نچلے حصے میں خوفناک درد محسوس کیا۔ میں جانتی تھی کہ یہ دردِ زہ ہے، لیکن قریب ہی نصیرات کے صالحی ٹاورز پر اسرائیلی بمباری کی آوازوں نے مجھے ساکت کر دیا تھا۔ نہ میں چلا سکتی تھی اور نہ ہی میں ہلنے کی طاقت رکھتی تھی۔ جبکہ ارد گرد ساری ایمبولینسز زخمیوں اور شہداء کو لے جانے کے لیے دوڑ رہی تھیں۔

30 سالہ رشا کے لیے یہ نیا تجربہ نہیں تھا،  یہ ان کی چوتھی زچگی تھی، مگر یہ پہلا موقع ہے جب وہ بچے کی پیدائش کے درد اور جنگ کی ہولناکی ایک ساتھ جھیلتی ہیں۔

 "میں نے ان خواتین اور لڑکیوں کی کہانیاں سنی اور پڑھی تھیں جنہوں نے جنگوں میں بچوں کو جنم دیا تھا، لیکن میں نے اس لمحے کو سمندر کے کنارے کسی خیمے کے اندر گزارنے کا تصور بھی ہیں کیا تھا۔”

رشا کے شوہر انہیں نصیرات کیمپ کے مغرب میں واقع العودہ ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی تلاش کرنے نکلے، لیکن یہ آسان نہیں تھا۔

"میرے شوہر پریشان تھے اور نہیں جانتے تھے کہ کیا کرنا ہے۔ مجھے بروقت ہسپتال پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ فکر بھی تھی کہ بچوں کو خیمے میں کیسے چھوڑ دیں۔ ہم نے ہمت کر کے اپنے پڑوسی کو فون کیا اور درخواست کی کہ وہ واپسی تک ان کا خیال رکھیں۔

رشا جیسے ہی ہسپتال پہنچی اسرائیلی جنگی طیاروں نے ہسپتال سے ملحقہ ایک گھر کو تباہ کر دیا۔

وہ "جگہ خوف سے بھری ہوئی تھی، ہسپتال میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ وہاں بہت انتظار کرنا پڑا۔ میں نے ولادت سے پہلے بیت الخلا جانے کی کوشش کی، لیکن لوگوں کی لمبی قطار کی وجہ سے میں نہیں جا سکی۔

جب ان سے پوچھا گیا کا اس وقت سب سے بڑا خوف کیا تھا تو انہوں نے کہا: "میں اس بچے کو کھونے سے ڈرتی تھی، اور ان بچوں کے لیے بھی جنہیں میں پیچھے خیمے میں چھوڑ کر آئی تھی۔

کاش میری والدہ ان مشکل لمحات میں میرے ساتھ ہوتیں۔ اپنی تکلیف کے ساتھ ساتھ میں زخمی بچوں اور عورتوں کے رونے کی آوازیں سن رہی تھی۔ "میں خدا سے دعا کر رہی تھی کہ یہ جنگ میری مقررہ تاریخ سے پہلے ختم ہو جائے۔”


مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے، "میں نے اپنے اور اپنے بچے کے لیے ضروری سامان بازاروں میں تلاش کیا، لیکن بہت سی بنیادی ضروری اشیا دستیاب نہ تھیں۔ میرے بیٹے محمد نے اپنی زندگی کا پہلا مہینہ سال کے گرم ترین دنوں میں گزارا ہے۔”

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ، یونیسیف کا اندازہ ہے کہ سات اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً 20000 بچے پیدا ہو چکے ہیں اور ان ہولناک حالات کے درمیان ہر 10 منٹ میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے مطابق، غزہ کی پٹی میں تقریباً 50 ہزار حاملہ خواتین موجود ہیں۔

تباہ کن حالات، صحت کی سہولیات کی تباہی، حفظان صحت کی کمی اور وبائی امراض کا پھیلاؤ خواتین میں بچوں کے لیے بالعموم اور نوزائیدہ بچوں کے لیے بالخصوص اندیشے پیدا کرتا ہے۔ ان میں سارہ احمد بھی شامل ہیں، جنہوں نے جنگ کے ابتدائی مہینوں میں یہ تجربہ کیا۔

نرس کے طور پر کام کرنے والی 28 سالہ سارہ کا کہنا ہے کہ خوف صرف بچے کی پیدائش کے دن ہی نہیں ہوتا۔ ہم نوزائیدہ کے لیے مناسب ماحول یا خوراک کی فراہمی کے حوالے سے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ دودھ پلانے والی ماں، یا شیر خوار بچے کے لیے ڈائپر اور دودھ فراہم کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

 "ایک بچہ جو محض چند گھنٹوں یا دنوں کا ہے بنیادی سہولیات کے بنا خیمے میں کیسے رہ سکتا ہے؟” جب ایک ماں صحت مند کھانا نہیں کھاتی ہے تو بچے کو دودھ کیسے پلا سکتی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ فارمولا دودھ بازاروں میں دستیاب نہیں ہے یا بہت زیادہ قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔” اگر آپ کو بین الاقوامی اداروں کی پیشکش میں سے کوئی ایک مل جائے تو یہ بمشکل ایک ہفتے کے لیے کافی ہے۔

سارہ طبی مسائل کی بھی نشاندہی کرتی ہیں جن کا سامنا خواتین کو زچگی کے دوران ہوتا ہے۔ ہسپتالوں کو نشانہ بنانے سے ان ماؤں کی دیکھ متاثر ہوتی ہے جو خون بہنے، انفیکشنز، یا بعد از پیدائش ڈپریشن جیسی پیچیدگیوں کا شکار ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سی ادویہ اور طبی سامان کی کمی کے باعث قبل از وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کو انکیوبیٹرز میں رکھنا، ایندھن کی شدید قلت اور بجلی اور خوراک کی عدم دستیابی بھی اہم مسائل ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے شائع کردہ اعداد وشمار کے مطابق غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں  تقریباً 60 ہزار حاملہ فلسطینی خواتین غذائی قلت اور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔

می یونس، جو پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے میڈیکل پوائنٹ پر موجود تھیں، نے وقفے وقفے سے خون بہنے کی شکایت کی۔ طبی عملے کا کہنا ہے کہ یہ صحت بخش خوراک کی کمی اور بار بار نقل مکانی کی وجہ سے ہے۔ انہیں قبل از وقت پیدائش کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

می کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے آغاز کے بعد سے تین بار بے گھر ہو چکی ہیں۔ وہ خان یونس  سے پہلے غزہ سے وسطی علاقے تک طویل فاصلہ طے کرنے پر مجبور تھیں۔ پھر انہوں نے پیدل رفح اور وہاں سے دیر البلح کی طرف نقل مکانی کی۔

حاملہ خواتین کو پانی اور خوراک کی کمی کے علاوہ نقل مکانی اور تناؤ کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام زچگی کے سامان کے امدادی پیکجوں کے داخلے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں پر غزہ کی جنگ کے اثرات کے بارے میں اپنے بلیٹن میں، اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ دودھ پلانے والی ماؤں اور حاملہ خواتین کے لیے صاف پانی تک رسائی انتہائی اہم ہے، جنہیں روزانہ پانی اور کیلوریز کا استعمال دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرنا پڑتا ہے۔

یونیسیف کے مطابق، 95 فیصد حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کو غذائیت کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نفسیاتی اثرات اور تولیدی صحت پر اس کے براہِ راست اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے، جس میں تناؤ کی وجہ سے قبل از وقت پیدائش اور اسقاط حمل میں اضافہ بھی شامل ہے۔

غزہ میں انسانی ہمدردی کے امور اور تعمیر نو کے چیف کوآرڈینیٹر سگریٹ کاگ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ڈاکٹرز حمل کے پہلے اور دوسرے سہ ماہی میں اسقاط حمل کی شرح میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

اس کی وجوہات کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ خواتین غزہ کی پٹی نفسیاتی، جسمانی اور صحت کے دباؤ کا شکار ہیں۔

 

مختصر لنک:

کاپی