طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کرنے والے ادارے’ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے خبردار کیا ہے کہ جسمانی چوٹیں، نفسیاتی صدمے اور طبی دیکھ بھال تک محدود رسائی جنوبی مغربی کنارے کے الخلیل شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے بہت سے فلسطینیوں کے لیے روزمرہ کی حقیقت کی نمائندگی کرتی ہے۔
الخلیلمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے "مقبوضہ علاقوںمیں زندگی: الخلیل میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا خطرہ” کے عنوان سے ایکرپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں بالعموم پورے مغربی کنارے اور بالخصوص الخلیل کے شہریوںکی طبی دیکھ بھال تک رسائی میں تیزی سے پیش آنے والی مشکلات پر روشنی ڈالی گئیہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹبارڈرز کے انسانی امور کے ڈائریکٹر فریڈریک وین ڈونگن نے کہا کہ "اسرائیلیافواج اور اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے نقل و حرکت، ہراساں کرنے، تشدد اور ان پرعائد پابندیاں الخلیل میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ اور غیر ضروری مصائب سے دوچار کر رہی ہیں۔ اس کے فلسطینیوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت پر تباہ کناثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "الخلیل گورنری میں وزارت صحت کے کلینک کو بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔فارمیسیوں میں ادویات کی سخت قلت ہے۔ بیماروں اور زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینسوںکو رکاوٹوں اور حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نےمزیدکہا کہ بہت سے مریضوں کو ان کی نقل و حرکت پر پابندی اور تشدد کے خطرے کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ وہ ڈاکٹر کے پاس جانے میں تاخیر کرتے ہیں یا علاج کو مکمل طور پرروکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے الخلیل میں خانداناپنے ذریعہ معاش کو کھونے کے بعد شدید مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بہت سےلوگوں کو ان کی صحت کی بیمہ منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
وان ڈونگن نےوضاحت کی کہ سات اکتوبر کے فوراً بعد کے مہینوں میں فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر پابندیاں اور الخلیلشہر کے H2 علاقے میں قابضفوج اور اس کے آباد کاروں کے حملے اتنے شدید تھے کہ مریضوں نے باڑ اور چھتوں پرچڑھ کر اپنی جانے بچانے کی کوشش کرنا پڑی۔