انسانیحقوق کی تنظیموں نےبتایا ہے کہ اسرائیلی قابض ریاست کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کیتعداد تقریباً 10000 ہوچکی ہے اور گرفتاری کی جاری مہم کے ساتھ تشدد اور شدید مارپیٹ بھی کی جا رہی ہے۔
رپورٹمیں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 کے آغاز تک قابض ریاست کی جیلوں میں قیدیوں کی کلتعداد تقریباً 9900 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں 3432 انتظامی قیدی، کم از کم 250 بچےاور 86 خواتین شامل ہیں۔
جیلخانہ جات کمیشن کے وکیل نے عوفر جیل کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ جیل انتظامیہ قیدیوں کے خلاف اپنی شرانگیزاورتشدد پرمبنی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، اور قیدیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہیہے۔
فلسطینیامور اسیران ومحررین اتھارٹی، ضمیر فاؤنڈیشن فار پریزنر ویلفیئر اینڈ ہیومن رائٹساورکلب برائے اسیران فلسطین کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے قیدیوںکی تعداد کو قابض جیل انتظامیہ نے "غیر قانونی جنگجو” کے طور پر درجہبندی کیا ہے اور اسے تسلیم کیا ہے۔
رپورٹمیں وضاحت کی گئی ہے کہ ان قیدیوں میں غزہ سے پکڑے گئے اور جبری اغوا کیےگئےفلسطینی شامل نہیں کیونکہ ان کے بارے میں درست اور مکمل معلومات دستیاب نہیں ہیں۔غزہ سے جبری اغواء کیے گئے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کے زیرانتظام عقوبت خانوںمیں رکھا گیا ہے۔
رپورٹمیں 7 اکتوبر سے 93 مرد اور خواتین صحافیوں کی قابض فوج کے ہاتھوں گرفتاری کی نشاندہی کی جن میں سے 55 اب بھی زیر حراست ہیں،جن میں 6 خواتین صحافی شامل ہیں، غزہ کے کم از کم 16 صحافی جن کی شناخت کی تصدیقہو چکی ہے، اور 17 جو انتظامی حراست میں ہیں۔
انسانیحقوق کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک انتظامیحراست کے احکامات کی تعداد تقریباً 7500 فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔
انتظامیحراست اسرائیلی فوجی حکم کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہے اور کسی بھی فلسطینی کو اسسزا کے تحت چھ ماہ قید کیا جاتا ہے جس کے بعد اس کی حراست میں بار بار توسیع کیجاتی ہے۔