مقبوضہبیت المقدس سےتعلق رکھنے والے ایک فلسطینی وکیل حمزہ قطینہ نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰکے مبلغ اور امام الشیخ عکرمہ صبری کو مسجد سے ہٹانا جہاں وہ 51 سال سےخطابت کےفرائض انجام دے رہے ہیں، مسجد سے بے دخلی کے بڑھتے ہوئے فیصلوں کا حصہ ہے۔
مسجداقصیٰ کے مبلغ کی دفاعی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ قطینہ نے مزید کہا کہ الشیخ عکرمہ کیگرفتاری، تفتیش اور مسجد اقصیٰ سے بے دخلی انتہائی دائیں بازو کی اشتعال انگیزیاور اسرائیلی حکومت کے ارکان کی ایک بہت بڑی مہم کے بعد ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اسرائیلی ریاست کا ایک انتہا پسند وزیر الشیخ عکرمہ صبری کے خلاف نفرت پراکسانے اور ان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ملوث ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی کو خطرہلاحق ہے۔
گذشتہجُمعہ کو قابض فوج نے الشیخ صبری کے خلاف اکسانے اور دہشت گردی کے الزامات کے تحتگرفتار کیا تھا۔ ان کی گرفتاری اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے پولیٹیکل بیورو کےسربراہ اسماعیل ھنیہ شہید کےحوالے سے مسجد اقصیٰ میں تقریرکرنے کے الزام میں عملمیں لائی گئی۔
ایڈووکیٹقطینہ نے الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ مقبوضہ شہرالقدس میں قابض پولیس چیفکی طرف سے مسجد اقصیٰ سے بے دخلی کے فیصلے "من مانی اور القدس کے باشندوں کوآزادی کے ساتھ اپنی عبادت کے حق سے محرومکرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے‘‘۔
انہوںنے کہا کہ قابض ریاست کے پولیس چیف کی طرف سے مسجد اقصیٰ سے بے دخلی کا فیصلہ سب سے خطرناک پیش رفت اور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مگر یہ ایک مسلسل اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہے جسکے تحت مسجد اقصیٰ کے خلاف سازشوں کو آگے بڑھانا ہے۔
خیالرہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں قابض ریاست کے جرائم اور خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹمیں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2024 کے دوران3739 آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پر دھاوابولا۔
رپورٹمیں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ قابض پولیس نے آباد کاروں کے نسل پرستانہ، مجرمانہطرز عمل کو کور فراہم کیا۔