فلسطین کےعظیمقومی رہ نما اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کیشہادت ایک عظیم لیڈر کی شہادت ہے، لیکن ان کی زندگی ان کے بعد آنے والی نسلوں کے لیےمشعل راہ رہے گی۔
شہید رہ نما ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے خاندانکے قریبی لوگوں کی محبت کو یکجا کیا۔ پڑوسیوں کا ہمیشہ خیال رکھا اور دشمن کے خلافمزاحمت کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
اسماعیل ھنیہ بےشمارخوبیوں کے مالک تھے۔ بلا کے خطیب اور شعلہ بیان مقرر،صاحب زبان اور فصاحتوبلاغت، خوش الحان قاری، منجھے ہوئے سیاست دان، دشمن کی آنکھ میں کٹھکتا کانٹاتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسماعیل ھنیہ فٹ بال کے کھلاڑی اور اس کھیل کے ماہر تھے۔انہوں نے اپنی تعلیمی زندگی میں فٹ بال کے کھیل کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنایا جو انکی پہچان بن گیا۔
ہنیہ نہ صرف ایکسیاسی رہ نما تھے بلکہ وہ ایک عاجز انسان تھے، ایک فعال کھلاڑی تھے۔اپنے خاندان سےپیار کرتے، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مہربان تھے اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے تھے۔ اس کا دل بڑا تھا جو ان کی رواداری کاعکاس تھا۔ وہ عوامی مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتے تھے۔
اس کے اپنے خاندان اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات
شہید اسماعیل ہنیہایک مہربان باپ، ایک خیال رکھنے والے دادا اور ایک اچھے پڑوسی تھے۔ایک ویڈیو میںشہید رہ نما اسماعیل ہنیہ کی بہو اپنے سسر کی شہادت پر ماتم کنا ہے اور اپنی دو شہیدبیٹیوں کو یاد کرتی نظر آتی ہیں۔
ان کی آنکھیںآنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی بیٹیاں امل اور منا جنگ کی لعنت سےبچنے کے لیے غزہ سے باہر جانے اور سفر کرنے اور اپنے دادا "ابو العبد”سے ملنے پر اصرار کر رہی تھیں مگر وہ شہید ہوگئیں۔ آج ان کے دادا بھی ان سے جاملے ہیں۔
فٹ بال کے لیے اس کی محبت
گذشتہ اخباری بیاناتمیں شہید رہ نما اسماعیل ہنیہ نے فٹ بال کی یادوں اور جوانی کے جذبے سے بھرپور اپنیکھیلوں کی سوانح عمری بیان کی تھی۔ جب انہوں نے 1976 میں بیچ سروسز کی یوتھ سروسزمیں فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔ پھر 1981ء میں پہلی ٹیم میں کھیلنے کے لیے کوالیفائیکیا۔ اس کے بعد غزہ کی پٹی میں مقامی طور پر اس کے ساتھ ہونے والے تمام ٹورنامنٹسمیں شرکت کی۔
ہنیہ نے اس دورکے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں نے بیچ کلب اور اسلامک سوسائٹی میںبہت سے ستاروں اور ناموں کے ساتھ فٹ بال کے خوشگوار وقت گزارے جنہیں میں ہمیشہ یادرکھتا ہوں۔
شہیداسماعیل ہنیہ1980ء کی دہائی میں اسلامی یونیورسٹی کی ٹیم کے ساتھ فٹ بال کھیلتے ہوئے ایک نایابتصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ تصویر خاص طور پر سال 1986 کی ہے، جب "ابوالعبد” اسلامی یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کے رکن تھے۔
1986 میں اسلامی یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم
ہنیہ ایک مڈفیلڈکھلاڑی تھےاور اسلامک کمپلیکس کلب کے لیے کھیلتے۔ انہوں نے اسلامی یونیورسٹی کی ٹیمکے ساتھ کھیلوں میں نمایا کامیابیاں حاصل کیں، جہاں ٹیم کی قیادت اس وقت غزہ کی پٹیکے کلبوں کے نامور کھلاڑیوں کے ایک گروپ نے کی۔
امام اور مبلغ
اپنی سیاسیاوردینی خدمات کے علاوہ اسماعیل ہانیہ ایک سماجی علامت اور معلم تھے۔ نماز تراویحمیں نمازیوں کی امامت کرتے۔ ان کی آواز بہت پیاری اور تلاوت قرآن سریلے اندازمیں کرتے تھے۔
شائع شدہ کلپس سےپتہ چلتا ہے کہ ہنیہ اپنی دعاؤں میں شکر، صبر، مصیبت، طاقت اور شہادت کی آیات کاانتخاب کرتے۔تاکہ اپنی جماعت کو روحانی ماحول میں تزکیہ کے درجات تک پہنچایا جائے۔
سوشل میڈیا پرسرگرم کارکنوں نے ان کی ایک تلاوت کی کئی ویڈیوز نشر کیں۔ انہوں نے سورۃ آل عمرانکی آیات پڑھیں جس میں شہادت اور شہداء کی فضیلت بیان کی گئی تھی، گویا وہ اپنیشہادت کی خود پیش گوئی کررہے ہیں۔
شہید ر ہ نماچونکہ زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کی خوبیوں کی وجہ سے سے ممتازمقام رکھتے تھے۔اس لیے وہ جہاں بھی جاتے جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خطبات صرف غزہ کی مساجدتک ہی محدود نہیں تھے۔ انہوں نے کئی ممالک میں جمعہ کے خطبات دیے جن کا انہوں نےدورہ کیا۔ انہوں نے 2011 میں تونس میں کیروان میں واقع عقبہ مسجد میں جمعہ کے خطبہدیا۔ اس کے علاوہ 2012 میں مصر میں الازہر مسجد بھی جمعہ کا خطبہ دیا تھا۔
حکومت کی صدارت سے ان کی رضاکارانہ دستبرداری
ھنیہ 2006ء میںہونے والے انتخابات میں فلسطینی قانون ساز کونسل کی اکثریتی نشستیں جیتنے کے بعد ’اصلاحو تبدیلی‘ کے پلیٹ فارم سے تشکیل کردہ فلسطینی حکومت کے سربراہ بنے۔
ایک سال بعد ہونےوالے اختلافات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے میں ایک حکومت قائم کی،جب کہ ہنیہ نے غزہ میں قائم آئینی حکومت کی سربراہی جاری رکھی۔
عہدے ، سیاسی وسماجی حیثیت کے باوجود شہید ہنیہ قومی مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھنےکے خواہاں تھے۔اس کے لیے انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔
درحقیقت انہوں نے قومی اتفاق رائے کی حکومت کے حق میں2014ء میں حکومت کی صدارت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور انہوں نے اپنے استعفیٰکے خط میں کہا کہ "آج میں قومی اتحاد کی کامیابی کے لیے رضاکارانہ طور پراپنے عہدے سے سبکدوش ہوتا ہوں”۔