اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے تہران میں نمائندے ڈاکٹر خالد القدومی نے تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور ان کے محافظ ساتھی وسیم ابو شعبان کے بدھ 31 جولائی کو تہران میں قتل کے حالات سے نئی تفصیلات بتائی ہیں۔ ”العربی الجدید“ کے مطابق خالد القدومی نے امریکی اخبار ”نیو یارک ٹائمز“ کے دعوے کے یہ قتل ان کی رہائش گاہ میں نصب بم کے ذریعے کیا گیا کی تردید کردی۔
ڈاکٹر خالد القدومی نے کہا کہ شہید اسماعیل ھنیہ منگل کی صبح تحریک کے رہنماؤں کے ایک وفد کی سربراہی میں ایران پہنچے جس میں عرب اور اسلامی تعلقات کے دفتر کے سربراہ خلیل الحیا اور پولیٹیکل بیورو کے رہنما محمد نصر اور زاھر جبارین بھی شامل تھے۔ ایران میں حماس کے نمائندے خالد القدومی بھی تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وفد منگل کی شام کو ایرانی پارلیمنٹ میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری میں شرکت کے لیے گیا۔ اور وہاں پارلیمنٹیرینز، ایرانی حکام اور غیر ملکی مہمانوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گرد جمع تھی۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے انہیں گرمجوشی سے گلے لگایا اور فتح کی نشانی کے طور پر اپنا ہاتھ اٹھایا۔ اس کے بعد وفد نے دارالحکومت میں برج میلاد میں نمائش ” تہذیب کی سرزمین“ کا دورہ کیا
خالد القدومی نے بتایا کہ نمائش میں موجود مسجد اقصیٰ کے گنبد صخرہ کے ماڈل نے شہید ھنیہ کو چند لمحوں کے لیے روکا۔ پھر انہوں نے ایک ایرانی لڑکی کا ڈرامہ دیکھا جس میں وہ لڑکی فلسطینی بچے کا کردار ادا کر رہی تھی۔ اس کے خاندان کو اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ تباہی کے درمیان تھی۔ کمانڈر اسماعیل ھنیہ نے اس بچی کو بلایا اور غزہ کے بچوں اور اپنے نواسوں اور پوتوں کو یاد کرتے ہوئے اس کا سر چوما۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اور ان کے ہمراہ وفد پزشکیان کی طرف سے عشائیہ کی دعوت کے جواب میں ایرانی صدارتی ہیڈ کوارٹرز گئے اور پھر تہران کے شمال میں اپنی رہائش گاہ چلے گئے۔ یہ رہائش گاہ خفیہ نہیں تھی اور بہت سے لوگوں کو اس جگہ کا علم تھا۔ یہ عمارت ملک میں آنے والے سب سے اہم مہمانوں کے لیے مخصوص تھی۔ خالد القدومی نے بتایا کہ اس بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو ان کی رہائش گاہ اور دیگر چیزوں کے بارے میں کیسے معلوم تھا یہ لایعنی بات ہے کیونکہ شہید رہنما عوامی دورے پر تھے اور ایک جلسہ میں تھے۔ وہ ایک سفارتی شخصیت ہیں۔ وہ فلسطین کے سابق وزیر اعظم اور حماس کے رہنما تھے۔
حماس کے نمائندے نے وضاحت کی کہ ہم رات گئے رہائش گاہ پر پہنچے تو شہید رہ نما اسماعیل ھنیہ نے شام کی نماز ادا کی۔ پھر ہم نے صدر کی حلف برداری کی تقریب اور اس کے اچھے ماحول کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے مجھے براہ راست بتایا کہ بہت سے وزرائے خارجہ اور ان ممالک کے نمائندے، جن میں سے کچھ حماس کو تسلیم نہیں کرتے، امن قائم کرنے کے لیے آگے آئے تھے۔ خالد القدومی نے مزید کہا کہ ہم نے شہید فواد شکر کے قتل، شہادت کی فضیلت اور حسن خاتمہ کے بارے میں بات کی تو ھنیہ نے کہا کہ یہ صہیونی وجود سے لڑنے والے ہر مجاہد بھائی کے لیے خوش آئند ہے۔
اس کے بعد شہید ھنیہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ خالد القدومی نے بتایا کہ اسماعیل ھنیہ کے وسیم ابو شعبان، جس کے پیچھے میں نے اس رات عشا کی نماز پڑھی، وہ شہید اسماعیل ھنیہ کی کمرے کے باہر پہرہ دے رہے تھے اور قرآن پڑھ رہے تھے۔ حماس کے نمائندے نے کہا کہ جب وہ شہید ہوئے تو قرآن ان کے ہاتھ میں تھا جس پر ان کا پاک خون نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔
اسماعیل ھنیہ کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حماس کے رہنما خالد القدومی نے مزید بتایا کہ ٹھیک ایک بج کر 37 منٹ پر عمارت میں لرزہ محسوس ہوا۔ اس لیے میں جس جگہ موجود تھا، وہاں سے نکل گیا۔ میں نے دبیز دھواں دیکھا۔ اور اس کے بعد کہ ہمیں معلوم ہوا کہ الحاج ابو العبد [اسماعیل ہنیہ کی کنیت] شہید ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں ایک چمک تھی۔ خالد القدومی نے مزید کہا کہ عمارت کو جو جھٹکا لگا اس کی شدت کی وجہ سے میں نے سوچا کہ گرج چمک یا زلزلہ آیا ہے۔ میں نے کھڑکی کھولی تو بارش یا گرج چمک دکھائی نہیں دی اور موسم گرم تھا۔ ہم چوتھی منزل پر گئے۔ جہاں اسماعیل ھنیہ تھے۔ پتہ چلا کہ جس جگہ وہ تھے اس کی دیوار اور چھت گر کر تباہ ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر القدومی نے مزید کہا کہ حملے کے بعد کی جگہ کی ظاہری شکل اور اس کے ساتھ کیا ہوا اور شہید اسماعیل ھنیہ کا جسد خاکی دیکھ کر واضح ہوتا ہے کہ ان کی خواب گاہ فضا سے آنے والے میزائل کا نشانہ بنی۔ یہ ایک میزائل یا کوئی گولہ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مزید تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ہمارے بھائیوں کا ایک ماہر وفد فنی تحقیقات کر رہا ہے اور نتائج کا اعلان بعد میں کرے گا۔
ایران میں حماس کے نمائندے نے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کی کہانی اور اسرائیلی پریس میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے بستر کے نیچے ان کی رہائش گاہ پر بم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری کے اس دعوے کی بھی تردید کر دی کہ اس رات حماس کو نشانہ بنانے کے لیے اسرائیلی فضائی حملہ نہیں کیا گیا تھا۔
خالد القدومی نے وضاحت کی کہ نیو یارک ٹائمز اور ہگاری کے اکاؤنٹ کی شہادتوں اور زمینی حقائق سے تردید کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا ان بیانات کا مقصد قابض اسرائیل کو براہ راست حملہ کا ذمہ داری قرار دینے کے الزامات سے بچایا ہے تاکہ جرم کے نتائج پر قابو پایا جا سکے اور اس کا جواب دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قابض اسرائیل ہی ہے جس نے امریکی علم اور منظوری سے اس جرم کی منصوبہ بندی کی اور اسے انجام دیا۔ امریکی انتظامیہ اس میں شراکت دار تھی اور نیتن یاہو کو اپنے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران ایسی کارروائیاں کرنے کی منظوری دی گئی۔
خالد القدومی نے کہا کہ شہید اسماعیل ھنیہ غزہ غزہ کی پٹی کے ان 40 ہزار شہدا میں سے ایک ہیں جنہوں نے نسل کشی کی ایک وسیع اور جامع جنگ میں جنم لیا۔ ان شہید ہونے والوں میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین تھے۔ ان شہدا کا پاک خون ایک ڈراؤنا خواب بن کر صہیونیوں کو ستاتا ہے ۔ یہ خون ”طوفان الاقصی“ کے منصوبے کو اس کی آخری منزل تک لے جائے گا۔ یہ منزل القدس اور مکمل تاریخی فلسطینی سرزمین کی دریا سے سمندر تک آزادی ہے۔