پنج شنبه 12/دسامبر/2024

اسماعیل ہنیہ: شہیدوں کے قافلے سے جا ملے

جمعہ 2-اگست-2024

اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایرانی دار الحکومت تہران میں صہیونی حملے میں اپنی جان دے کر شہیدوں کے اُسی قافلے میں شامل ہو گئے جس میں تنظیم کے سابق قائدین پہلے ہی جُڑ کر اپنی مراد چکے ہیں۔ اسماعیل کے یہ الفاظ کہ "ہم اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے” تاریخ میں امر ہو گئے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کے سب سے بڑے بیٹے عبدالسلام ہنیہ نے اپنے والد کی شہادت پر کہا کہ "ان کے والد اور بقیہ شہداء کا خون امت اور مزاحمت کو پھر سے زندہ کرے گا یہاں تک کہ فتح یقینی بن جائے”۔

اپنے خاندان کے متعدد لوگوں کی شہادت پر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ "میرے والد کا خون غزہ میں شہید ہونے والے بچوں، مردوں اور عورتوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے… ہم جہاد اور انقلاب کے راستے پر ہیں۔ اگر قابض طاقت یہ سمجھتی ہے کہ مزاحمت اور جذبہ ختم ہو جائے گا تو یہ اس کا وہم ہے، قائدین کا خون ہماری مزاحمت اور انقلاب کو نئی زندگی بخشتا ہے”۔

تہران حملے سے پہلے اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کو چار مرتبہ قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اس دوران میں غزہ کی پٹی میں جنگوں میں اسماعیل کے کئی بیٹے، پوتے اور خاندان کے دیگر لوگ شہید ہوئے اور قابض اسرائیلی فوج نے کئی مرتبہ ان کے گھر کو تباہ کیا۔

پیدائش اور پرورش

 

اسماعیل ہنیہ کا پورا نام ‘اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ’ تھا۔ وہ 29 جنوری 1963 کو غزہ شہر کے مغرب میں واقع الشاطی مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ اسماعیل کے گھرانے نے 1948 میں عسقلان کے الجورہ گاؤں سے جبری ہجرت کے بعد اسی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لی تھی۔
اسماعیل کی شادی 1980 میں 17 برس کی عمر میں ہوئی۔ ان کے 13 بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔

تعلیم اور طلبہ سرگرمیاں

 

اسماعیل نے ابتدائی تعلیم اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی ‘انروا’ کے سکولوں میں حاصل کی اور معہد الازہر سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ انھوں نے 1987 میں غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لیا اور عربی ادب کے شعبے سے فارغ التحصیل ہوئے۔

اسماعیل کو 2009 میں جامعہ اسلامیہ کی جانب سے اعزازی طور پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔

اسماعیل نے 1983 میں حماس تنظیم کے طلبہ ونگ ‘الکتلہ الاسلامیہ’ سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور 1985 میں وہ طلبہ کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔

اسماعیل ہنیہ نے 1990 کی دہائی میں غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں کئی عہدوں پر کام کیا۔ بعد ازاں 1997 میں انھوں نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے دفتر کی سربراہی سنبھالی۔

گرفتاریاں

قابض اسرائیلی فوج نے اسماعیل ہنیہ کو پہلی مرتبہ 1987 میں فلسطینی انتفاضہ شروع ہونے کے فورا بعد گرفتار کیا۔ انھوں نے ایک ماہ کے قریب جیل میں گزارا۔ اس کے بعد 1988 میں وہ دوبارہ گرفتار ہوئے اور اس بار چھ ماہ جیل میں رہے۔ اگلے سال 1989 میں اسماعیل کو ایک بار پھر حراست میں لے لیا گیا اور انھوں نے تین سال جیل میں گزارے۔

رہائی کے بعد اسماعیل کو حماس اور الجہاد الاسلامی تنظیموں کے 400 رہنماؤں کے ساتھ ملک بدر کر کے لبنان کے جنوب میں واقع علاقے مرج الزہور جلاوطن کر دیا گیا۔ ایک سال جلا وطن رہنے کے بعد اسماعیل غزہ کی پٹی واپس آ گئے اور غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں ‘الکتلہ الاسلامیہ’ کے سربراہ بن گئے۔

اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے چار بار قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں ایک کارروائی کے دوران میں وہ زخمی ہوئے۔ یہ اسرائیلی حملہ 6 ستمبر 2003 کو ہوا تھا جس میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت تنظیم کے بعض دیگر رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

انتخابات میں کامیابی اور وزارت عظمیٰ

 

جنوری 2006 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حماس تنظیم نے "تبدیلی اور اصلاح بلاک” کے نام سے حصہ لیا۔ اس بلاک نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اسماعیل ہنیہ فروری 2006 میں حماس کی جانب سے تشکیل دی گئی دسویں فلسطینی حکومت میں وزیر اعظم بن گئے۔

اگلے سال 2007 میں انھوں نے قومی یکجہتی کی حکومت کی سربراہی سنبھالی۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے جون 2007 کے واقعات کے بعد وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو برطرف کر دیا۔ صدر کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں دو الگ حکومتیں بن گئیں۔

اسماعیل ہنیہ نے کئی مرتبہ اعلان کیا کہ وہ وسیع مصالحت کے سلسلے میں حکومت کی سربراہی سے دست بردار ہونا قبول کرتے ہیں۔ وہ 2 جون 2014 کو رامی الحمد اللہ کے لیے عملی طور پر دست بردار ہو گئے۔

اسماعیل ہنیہ ایک بار حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ اور دو بار غزہ کی پٹی میں حماس کے قائد کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔

حماس کی سربراہی

 

اسماعیل ہنیہ چھ مئی 2017 کو حماس تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ بن گئے۔ انھیں تنظیم کی مجلس شوریٰ کے ارکان نے دوحہ اور غزہ میں بیک وقت ہونے والے انتخابات میں منتخب کیا۔

اسماعیل ہنیہ حماس تنظیم میں اس اعلیٰ ترین سیاسی منصب پر فائز ہونے والی تیسری شخصیت ہیں۔ ان سے قبل ڈاکٹر موسی ابو مرزوق 1992 میں حماس کے پہلے سیاسی دفتر کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ ان کے بعد خالد مشعل نے انتخابات کے راستے تقریبا بیس برس تک یہ منصب سنبھالا۔

طوفان الاقصیٰ میں شرکت

 

گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف "طوفان الاقصیٰ” آپریشن شروع ہونے فورا بعد اسماعیل ہنیہ دوحہ میں تنظیم کی قیادت کے ہمراہ ایک وڈیو میں نمودار ہوئے۔ یہ وڈیو کلپ ذرائع ابلاغ کی جانب سے نشر کیا گیا۔ وڈیو کے مناظر کے مطابق اسماعیل ایک عربی ٹی وی چینل پر حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز کے مزاحمت کاروں کے بارے میں رپورٹ دیکھ رہے تھے جو اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر قبضہ کر چکے تھے۔

فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے صہیونی جنگ میں شدت آنے کے بعد بھی اسماعیل ہنیہ قتل عام روکنے کے واسطے متحرک رہے اور ملاقاتیں کرتے رہے۔ انھوں نے متعدد تقاریر کے علاوہ درجنوں سفارتی ملاقاتیں کیں اور کئی ممالک کے دوروں پر گئے۔ اسماعیل نے جھکنے سے اور رعائتیں پیش کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطینی عوام کے حقوق اور دشمن کی جارحیت روکنے کے مطالبے پر ڈٹ گئے۔ وہ اسرائیل کی جانب سے قتل کی علانیہ دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے خاندان کے متعدد افراد کی شہادت کے باوجود دباؤ میں نہیں آئے۔

رواں سال 10 پریل (2024) کو عید الفطر کے موقع پر اسرائیل نے غزہ کے الشاطی کیمپ میں ایک گاڑی کو حملے کا نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کے گھرانے کے سات افراد شہید ہو گئے۔ ان میں اسماعیل کے 3 بیٹوں کے علاوہ پوتے بھی شامل تھے۔ اس سانحے کے بعد اسماعیل کا کہنا تھا کہ "میرے بیٹوں اور پوتوں کا خون فسلطینی قوم کے لوگوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ میں اس اعزاز کے حاصل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں”۔

اسی طرح 24 جون (2024) کو اسرائیلی فوج نے الشاطی کیمپ میں ایک گھر پر بم باری کی۔ اس کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ کی بہن سمیت خاندان کے 10 افراد شہید ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے 1948 کی مقبوضہ اراضی سے اسماعیل ہنیہ کی ایک شادی شدہ بہن کو گرفتار کر لیا۔

مناصب

 

·        مئی 2017 میں خالد مشعل کے بعد حماس کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھالی.

·        فروری 2006 سے 14 جون 2007 تک فلسطین کے وزیر اعظم رہے. اس کے بعد غزہ کی پٹی میں نگراں وزیر اعظم کے طور پر یکم جون 2014 تک کام کیا.

·        غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ رہے.

·        حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے دفتر کے ڈائریکٹر رہے.

·        غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں اعلی انتظامی اتھارٹی کے رکن رہے.

·        دس برس تک جامعہ اسلامیہ کے کلب کے صدر رہے.

·        غزہ کی جامعہ اسلامیہ میں بورڈ آف ٹرسٹیز کے سکریٹری رہے.

·        جامعہ اسلامیہ میں انتظامی امور کے ڈائریکٹر رہے.

·        جامعہ اسلامیہ میں اکیڈمک امور کے ڈائریکٹر رہے.

·        جامعہ اسلامیہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن رہے.

·        فلسطینی گروپوں اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مکالمے کے لیے حماس کی اعلی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رہے

چند مشہور اقوال:

 

·        اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، نہیں کریں گے، نہیں کریں گے۔

·        قلعے منہدم نہیں ہوں گے اور اللہ کے حکم سے وہ ہم سے ہمارے مواقف پر ثابت قدمی چھین نہیں سکیں گے.

·        حماس تنظیم فلسطینی قوم کی آبرو کی خاطر اپنی قیادت اور بانیوں کی شہادت پیش کرتی رہے گی، یہ حملے ہماری قوم کی قوت اور عزیمت کو اور زیادہ مضبوط بنائیں گے، یہ ہے مزاحمت کی تاریخ جب کہ حماس تنظیم اپنے قائدین کے قتل کے بعد زیادہ طاقت ور ہو جاتی ہے.

·        بطور وزیر اعظم الشاطی پناہ گزین کیمپ میں رہنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔

·        ہم ایسی قوم ہیں جو موت سے اس طرح عشق کرتی ہے جیسے ہمارے دشمن زندگی سے عشق کرتے ہیں۔ ہم تو شہادت کے عاشق ہیں جس کو ہماری قیادت نے گلے لگایا۔

·        نہیں … ہزار بار نہیں … موت قبول ذلت نہیں، رہائی پانے والے ہیروز کی آزادی پر کوئی سودے بازی قبول نہیں.

 

مختصر لنک:

کاپی