اسلامی تحریکمزاحمت ’حماس‘ کے پولیٹیکل بیورو کے رکن حسام بدران نے نے کہا ہے کہ "ہر وہشخص جو فلسطین کی اندرونی صورت حال پر نظر رکھتا ہے، اس بات کا ادراک کرتا ہے کہاس میں بہت سی پیچیدگیاں اور رکاوٹیں ہیں۔ ہم حماس کی طرف سے ثابت قدم اور واضح موقفپر چل رہے ہیں۔ فلسطینی قومی اتحاد اس قابض دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔یہ مقابلہ صرف مزاحمت کے میدان میں ممکن ہے۔ حماس مزاحمت کے میدان میں فلسطینیشراکت داری میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔
بدران نے مزیدکہا کہ "فلسطین میں متفقہ قومی حکومت کے خیال کے بارے میں بات کرنا درحقیقت حماسکی طرف سے ایک خیال اور اقدام ہے۔ ہم نے اسے اس جنگ کے پہلے ہفتوں میں پیش کیا۔ اسکے ذریعے ہم ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔ تمام فریقین جو فلسطینیوں کے اندرونیمعاملات کو درست رکھنا چاہتے ہیں وہ اس میں ہماری مدد کریں مگر ہم فلسطینیوں کےداخلی معاملات میں کسی بیرونی ہاتھ کی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے۔ فلسطینی عوامکے حالات کو ترتیب دینا یہ فلسطین کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم کسی بھی فریق کوخواہ علاقائی ہو یا بین الاقوامی، اس میں مداخلت یا اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی کوششکرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "اسوقت سے ہم دھڑوں، مختلف قوتوں اور اپنے فلسطینی عوام کے اجزاء کے ساتھ آگے بڑھ رہےہیں۔ اس خیال کو فلسطینی میدان میں بڑے پیمانے پر قبول کیا گیا تھا”۔
تحریک فتح کی طرف سے مصالحت کی طرف قدم اہم پیش رفت
حسام بدران نے مزیدکہا کہ "نئی بات یہ ہے کہ تحریک فتح کے بھائیوں نے اس تجویز پر اتفاق کیا ہے۔یہ اہم پیش رفت ہے۔ شاید اس خیال کے آغاز کے بعد پہلی بار ہم فلسطینیوں کی متفقہحکومت کی تشکیل کی طرف بڑھنے کی بات کر رہے ہیں۔ فلسطینی دھڑے غزہ اور مغربی کنارےمیں فلسطینیوں کے معاملات کو سنبھالنے، تعمیر نو کی نگرانی اور جنگ کے بعد کےمرحلے میں انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنانے پر متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہا کہ "ہم نے اس اجلاس میں میکانزم کے بارے میں بات کی، لیکن ایک یا دو دن کیمیٹنگ اس معاہدے اور فلسطینی قومی اتفاق رائے سے حکومت کی تشکیل سے متعلق تفصیلات کے بارے میںبات کرنے کی گنجائش فراہم نہیں کرتی ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہفلسطینیوں کا ایک دیرینہ عوامی مطالبہ بھی ہے۔
متفقہ حکومت کا التوا
انہوں نے اس بات پر زور دیاکہ "آنے والے دنوں میں حماس تمام دھڑوں کے ساتھ اس معاہدے پر عمل درآمد کویقینی بنانے کے لیے پیش قدمی کرے گی خاص طور پر ایک متفقہ حکومت کی تشکیل زیادہالتوا کو برداشت نہیں کر سکتی”۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ "حماس جنگ کے خاتمے کے بعد ایک متفقہ حکومت کی تجویز نہیں دے رہی ہے۔ہم جلد از جلد اس حکومت کے قیام تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ خواہ لڑائی جاری رہے۔ ہم اسپر یقین رکھتے ہیں۔ ایسی حکومت جنگ بندی تک پہنچنے میں سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ یہنیتن یاہو حکومت کے مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی میں حقائق مسلط کرنے کے منصوبوں کےسامنے ایک ناقابل تسخیر رکاوٹ کھڑی کر سکتی ہے۔
فلسطینی اتحاد سے جارحیت کا مقابلہ
حسام بدران نےکہا کہ "قومی ایکشن پلان سب کچھ لینےیا سب کو چھوڑنے کا چکر نہیں ہے۔ یہ صرف تجربات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا ہے، ہاں!تجربات مشکل تھے اور ان میں بہت سی تلخی تھی۔ بدقسمتی سے کچھ فلسطینی جماعتوں کاتمام امور پراتفاق نہیں تھا۔ مگر قومی حکومت کی تشکیل سب کا بنیاد مطالبہ تھا۔
انہوں نے وضاحت کیکہ "ہر اشارہ، ہر موقع اور ہر کوشش فلسطینیوں کےاندرونی اتحاد اور اس جارحیتکا مقابلہ کرنے کے معاملے پر جزوی پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے، خواہ وہ قابض دشمنکی طرف سے ہو یا اس کے حامیوں، خاص طور پر امریکہ کی طرف ہو۔ کسی بھی فلسطینی قیادتکے لیے اس سمت میں آگے بڑھنا منطقی اور فطری صورت حال ہے۔ اس سے لڑائی سے متعلقہماری تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "ہم تقریباً 10 ماہ سے میدان میں یہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم اپنے فلسطینیعوام کے دفاع کے لیے ہر کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قومی سطح پر مصالحتی اجلاس مزاحمتکو جاری رکھنے کا متبادل نہیں ہیں”۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "اس اعلامیے میں ہم نے قابض ریاست کے خلاف ہر طرح کیمزاحمت کے عوامی حق کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ہم نے ایک اہم نکتے کی بھی توثیق کی، جو اس جنگ کےبارے میں ہمارے بیانیے کے حوالے سے فلسطینیوں کے دھڑے بندی کے موقف کا اتحاد ہے۔ یہنکتہ اپنے دفاع کا ہمارا حق ہے۔ یہ کچھمتضاد آوازوں کو ایک کونے میں کھڑا کر دیتا ہے جو مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
فلسطین کا مستحکم موقف
انہوں نے نشاندہیکی کہ حماس”مستقل اور مکمل جنگ بندی کی ضرورت اور غزہ کی پٹی سے قابض فوج کےانخلاء کے بارے میں بات کرتی ہے۔ ہم امداد اور تعمیر نو کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے فلسطینی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے تاکہ کچھ فریق فلسطینی پوزیشن یارائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں اور ہمارے معاملات میں دخل اندازی سے بازرہیں۔
بدران نے کہا کہ”چین کی میزبانی میں ہونے والے مصالحتی مذاکرات میں 14 فلسطینی گروپ شامل تھے۔ یہحماس اور تحریک فتح کے درمیان دو طرفہ ملاقات نہیں ہے۔ ہر دھڑے نے اپنا موقف دیااور موجودہ مرحلے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں، اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ غزہ کیپٹی اور مغربی کنارے میں خون کی ہولی کی موجودگی کی روشنی میں یہ بحث کوئی فکریفلسفیانہ بحث نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے مزیدکہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان اختلافات ہیں اور ہم حماساور الفتح کے درمیان صرف بعض معاملات اور بعض امور پر بات نہیں کرتے بلکہ اعلامیے میںجن امور پر ہم نے اتفاق کیا اورتوثیق کی ہے وہ واضح ہیں۔
بدران نے اس باتپر زور دیا کہ حماس "تمام جماعتوں کے ساتھ زمینی طور پر عمل درآمد پر کامکرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔ حماس اندرونی فلسطینی صورت حال کو مزید بااختیاربنانے کے لیے دیگر مثبت اقدامات کے ساتھ ان اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے”۔
۔